Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم نواز کی پیشی: لاہور کا نیب آفس واقعی ریڈ زون بننے جا رہا ہے؟

صوبائی حکومت نے 26 مارچ کو لاہور میں رینجرز کی نفری طلب کی ہے۔ (ٖفوٹو: اے ایف پی)
پنجاب کا دارالحکومت لاہور ایک بار پھر سیاسی گرما گرمی کا مرکز بن چکا ہے اور اس بار وجہ یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز قومی احتساب بیورو (نیب) کے سامنے پیش ہونے جا رہی ہیں۔
نیب نے مریم نواز کو 26 مارچ کو دومختلف مقدمات میں تفتیش کے لیے طلب کر رکھا ہے۔
ایک مقدمہ چوہدری شوگر ملز سے متعلق ہے، جس میں نیب انہیں پہلے بھی گرفتار کر چکا ہے اور وہ ضمانت پر ہیں جبکہ دوسرا مقدمہ جاتی امرا کی زمینوں سے متعلق ہے۔ 
پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے اعلان کیا ہے کہ مریم نواز کی نیب پیشی کے دوران تمام جماعتوں کے کارکن ان کے ساتھ جائیں گے۔
اس حوالے سے جمعیت علمائے اسلام ف اور پیپلزپارٹی نے اپنے کارکنوں کو نیب دفتر کے باہر پہنچنے کی ہدایت کی ہے۔
دوسری طرف صوبائی حکومت نے بھی صورت حال کو دیکھتے ہوئے رینجرز اور پولیس کی نفری مانگ لی ہے۔  
پنجاب کی وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’نیب کی جانب سے درخواست ملنے کے بعد سکیورٹی کے حوالے سے جامع حکمت عملی تشکیل دی جاری ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزارت داخلہ نے بھی رینجرز کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے، تاہم ابھی تک نیب کے دفتر کو ریڈ زون ڈیکلیئر کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا۔‘ 
خیال رہے کہ پاکستان کا مقامی میڈیا گذشتہ روز سے یہ خبر چلارہا ہے کہ نیب کے دفتر کو ریڈ زون ڈیکلیئر کر دیا گیا ہے اور 26 مارچ کو نیب کے دفتر کے قریب غیر متعلقہ افراد کو جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
پاکستان میں اس سے پہلے ریڈ زون کی اصطلاح وفاقی دارالحکومت میں پاکستان سیکرٹیریٹ اور پارلیمنٹ سمیت حساس ترین عمارتوں کی سکیورٹی کے لیے استعمال ہوتی ہے یا دوسرے نمبر پر کراچی میں وزیراعلیٰ ہاؤس سمیت چند اہم عمارتوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
البتہ لاہور کے لیے یہ اصطلاح نئی ہے۔  

نیب نے مریم نواز کو 26 مارچ کو دومختلف مقدمات  میں تفتیش کے لیے طلب کر رکھا ہے (فوٹو: نیب)

پنجاب کے سابق آئی جی شوکت جاوید سمجھتے ہیں کہ یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہوگی۔ ان کے مطابق ’میں 30 سال سے زائد پولیس سروس میں رہا ہوں اور فورس کا چیف بھی رہا ہوں، مجھے نہیں یاد کہ لاہور کے کسی بھی علاقے یا عمارت کو اس سے پہلے ریڈ زون ڈیکلیئر کیا گیا ہو۔ میں نے بھی خبریں دیکھی ہیں کہ نیب آفس کو ریڈ زون ڈیکلیئر کیا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہوگی۔‘ 
ریڈ زون کی اصطلاح کے حوالے سے بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’ریڈ زون کوئی لیگل ٹرم نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سخت ترین سکیورٹی زون، جہاں کسی بھی غیرمتعلقہ شخص کو جانے کی اجازت نہ ہو۔ اس کے پیچھے جو لیگل کور استعمال ہو رہا ہوتا ہے وہ دفعہ 144 ہی ہے۔  یہ ایک انتظامی قانون ہے جس سے آپ لوگوں کی نقل حرکت اور اکٹھ کو روک سکتے ہیں۔ اگر نیب آفس کو ریڈ زون ڈیکلیئر کر دیا جاتا ہے تو اس اصطلاح کا صرف ایک ہی مطلب ہوگا کہ معمول سے زیادہ سکیورٹی ہوگی اور ایک قانونی حکم کے تحت وہاں عام افراد کا داخلہ ممنوع ہوگا‘ 
خیال رہے کہ لاہور میں نیب کا دفتر ٹھوکر نیاز بیگ کے علاقے میں عین اس جگہ واقع ہے جو کہ لاہور کا داخلی دروازہ کہلاتا ہے۔ نہ صرف ملتان اور سارے جنوبی پنجاب کی ٹریفک ادھر سے لاہور میں داخل ہوتی ہے بلکہ موٹر وے کا آخری سرا بھی یہیں اختتام پزیر ہوتا ہے۔

پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے اعلان کیا ہے کہ ان کے کارکن مریم نواز کے ساتھ جائیں گے (فوٹو: اے ایف پی)

اگر حکومت اس علاقے کو ریڈ زون ڈیکلیئر کرتی ہے تو اس کا واضح مطلب ہوگا کہ لاہور کا ایک طرف داخلی راستہ بلکل بند کر دیا جائے گا اور اس سلسلے میں صرف ایک ہی سڑک بچے گی جو براستہ بحریہ ٹاون ملتان روڈ کو لگتی ہے جبکہ موٹر وے پر جانے کے لیے واپڈا ٹاون کا راستہ استعمال ہوگا۔
گذشتہ سال اگست میں جب مریم نواز کو اس سے پہلے نیب نے اسی کیس میں طلب کیا تھا تو شہر کے مرکزی داخلی راستے کو بند کر کے بحریہ ٹاؤن والے راستے کو عام ٹریفک کا روٹ قرار دیا گیا تھا۔ یہ راستہ بھی نیب آفس سے تقریباً آٹھ سو میٹر کی دوری سے ٹھوکر نیاز بیگ چوک میں ہی نکلتا ہے۔  
لاہور ٹریفک پولیس کے مطابق سکیورٹی پلان تیار ہونے کے بعد ہی ٹریفک پلان تشکیل دیا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں جب ٹریفک پولیس کو ہائی سکیورٹی زون کی مارکنگ کر کے دے دی جائے گی تو اس کے بعد وہ ٹریفک پلان ترتیب دیں گے کہ سڑک بند ہونے کی صورت میں اور کس کس راستے سے لاہور میں داخل ہوا جا سکے گا۔  

شیئر: