Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گیلانی کے اپوزیشن لیڈر بننے سے مریم نواز کا ناشتہ بے مزہ ہو گیا

یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ انہیں سرکاری اپوزیشن کہنا مناسب نہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
جمعے کی صبح جب لاہور میں مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز پاکستان پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم کے رہنماؤں کی ناشتے پر میزبانی کر رہیں تھیں اسی وقت اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کا ایک وفد یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں چیئرمین سینٹ سے ملاقات کر کے ان کی بطور اپوزیشن لیڈر تعیناتی کا پروانہ مانگ رہا تھا۔
مسلم لیگ ن کی جانب سے میڈیا کو جاری فوٹیج میں دیکھا جا سکتا تھا کہ مریم نواز بہت خوش دلی سے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمرزمان کائرہ کو اپنے گھر میں خوش آمدید کہہ رہی ہیں۔ اس ناشتے کا مقصد مریم نواز کی جانب سے پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم جماعتوں کی جانب سے ان کی نیب پیشی کے موقع پر اظہار یک جہتی کا شکریہ ادا کرنا تھا۔
گو کہ نیب نے مریم نواز کی پیشی کورونا کے باعث ملتوی کر دی تھی تاہم قمر زمان کائرہ سمیت پی ڈی ایم رہنماؤں نے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ جمعے کی پیشی میں مریم کے ساتھ نیب کے دفتر جائیں گے۔
تاہم ناشتے کے دوران ہی جب میزبان کو یہ خبر ملی ہو گی کہ اسلام آباد میں بازی پلٹ گئی ہے تو یقینا منہ کا ذائقہ بدل گیا ہو گا۔
خبر ملتے ہی مریم نواز کے ناشتے میں موجود مسلم لیگ نواز کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے ٹوئٹر پر پیپلز پارٹی کو آڑھے ہاتھوں لینا شروع کر دیا۔
گیلانی کی نامزدگی اور چیئرمین سینٹ سے ملاقات کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی سنیٹر روبینہ خالد کی ٹویٹ کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ ’ اسی کے پاس عرضی لے کر پہنچ گئے جس کے چیئرمین سینٹ الیکشن کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے- کچھ مناسب نہیں لگا-‘
کچھ دیر بعد پھر ٹویٹ کرتے ہوئے سینیئر مسلم لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ’یوسف رضا گیلانی قابل احترام ہیں مگر ان سے یہ توقع ضرور کی جاتی تھی کہ وہ کسی یکطرفہ قدم کو اٹھانے کے بجائے ان پی ڈی ایم جماعتوں کو ضرور اعتماد میں لیں گے جن کے ووٹوں کے بنا وہ کبھی سینٹر منتخب نہیں ہو سکتے تھے- مگر انہوں نے باپ پارٹی کے سینیٹرز کو زیادہ قابل اعتماد سمجھا- پسند اپنی اپنی۔‘
ان کی ٹویٹ کا ذکر شام کو نامزد اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی نے بھی کیا اور کہا کہ چند دن قبل مولانا فضل الرحمٰن کی مداخلت سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں سیز فائر ہو گیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ انہیں سرکاری اپوزیشن کہنا مناسب نہیں کیونکہ وہ اپوزیشن کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں اور وہ پی ڈی ایم اتحاد کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو پتا تھا کہ ان کے بغیر اتحاد نہیں چلے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم اب یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ اتنی تلخیوں کے باوجود بھی کیا اپوزیشن کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) مستقبل میں قائم رہ پائے گا؟

کیا پی ڈی ایم اسی تنخواہ پر کام کرے گی؟

تجزیہ کاروں کے مطابق لفظی گولہ باری کے باجود پی ڈی ایم مستقبل قریب میں قائم ہی رہے گا کیونکہ اسی میں اتحاد کی تمام جماعتوں کا مفاد پوشیدہ ہے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں پی ڈی ایم اسی تنخواہ پر چلتا رہے گا کیونکہ اس وقت اتحاد کو توڑنا نہ پیپلز پارٹی کے مفاد میں ہے اور نہ ہی مسلم لیگ نواز یا جمعیت علمائے اسلام کے مفاد میں۔

’ان سب کو ایک دوسرے کا سہارا ملا ہوا ہے اگر یہ تقسیم ہوئے تو کمزور ہو جائیں گے ۔‘

رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو پتا تھا کہ ان کے بغیر اتحاد نہیں چلے گا اس لیے انہوں نے اپنے مفاد میں بہتر سیاست کر لی۔
’اب اصولا تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی پر باقی جماعتیں پیپلز پارٹی کو اتحاد سے باہر نکال دیتیں مگر ان میں ایسا کرنے کی جان نہیں ہے۔ سب ایک دوسرے کو سیاسی طور پر استعمال کرتے رہیں گے کیونکہ ان سب کا مقصد حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ سلیکٹڈ اور پرو اسٹیبلشمنٹ جیسے الفاظ استعمال کرکے فائدہ اٹھائیں گے۔‘

حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم نے مختلف شہروں میں جلسے منعقد کیے (فوٹو: اے ایف پی)

سینیئر صحافی مجیب الرحمن شامی بھی اتفاق کرتے ہیں کہ پی ڈی ایم چلتی رہے گی دو قدم آگے ایک قدم پیچھے۔ ’میرے خیال میں بریکنگ پوائنٹ کی طرف نہیں جائیں گے جیسا کہ نیب میں مریم نواز کی پیشی پر بھی پیپلز پارٹی نے ساتھ جانے کا اعلان کیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اپوزیشن اتحاد کی واحد جماعت نہیں جس نے اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر یوسف رضا گیلانی کی حمایت کی ہے بلکہ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے۔ان کی رائے میں اتحاد چھوڑنے سے دونوں جماعتوں کو نقصان ہو سکتا ہے اور ان کی بارگین کرنے کی طاقت کم ہو جائے گی۔

حکومت مخالف لانگ مارچ کے لیے ہنوز دلی دور است

اس سوال پر کہ کیا اب بھی پی ڈی ایم حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرے گی؟ مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ ’لانگ مارچ ابھی بہت دور ہے رمضان کے بعد ہونا ہے۔ پھر مئی کا مہینہ آ جائے گا اور گرمیاں شروع ہو جائیں گی جس میں عوامی تحریک مشکل ہو جائے گی۔‘
تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں میں اختلاف بڑھ گیا ہے۔ ان کی واضح حکمت عملی نہیں ہے اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنا امیدوار لانے سے مستقبل میں تعاون کی توقع کم ہو گئی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ تک کافی تبدیلیاں آجائیں گی اور پھر پتا نہیں کیا کیا تبدیل ہو جائے۔

شیئر: