Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹوئٹر پر جنگ: صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں

مریم نواز نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ جس کو پریشان ہونا چاہیے وہ خود سیلیکٹڈ ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے پہلے سے طے شدہ 26 مارچ کو ہونے والے لانگ مارچ کو موخر تو کر دیا ہے لیکن اس کے نتیجے میں اپوزیشن کی جماعتوں کے مابین اعتماد کی کمی مختلف زاویوں سے سامنے آ رہی ہے۔
اپوزیشن اتحاد کی جماعتیں ایک دوسرے کا نام لیے بغیر اور ایک دوسرے کو منسوب کیے بغیر ٹی وی سکرینوں پر اور سوشل میڈیا پر اپنا مدعا بیان کر رہی ہیں۔
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے لانگ مارچ کے موخر ہونے کے ایک روز بعد 17 مارچ کو ایک ٹویٹ کیا جس کو سیاسی مبصر ایک ذومعنی ٹویٹ قرار دے رہے ہیں۔
انہوں نے کسی صارف کی اس بات کا جواب دیا جس میں اس صارف نے پی ڈی ایم کی میٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا ’امید ہے آپ ٹھیک ہوں گی مریم نواز کیونکہ کل دفتر میں ایک سخت دن تھا۔ کوئی بات نہیں ہم اب بھی آپ کی کوششوں کو سراہتے ہیں جو اب تک آپ نے کیں۔‘ 
مریم نواز نے اس ٹویٹ کو قوٹ ری ٹویٹ کرتے ہوئے نہ صرف صارف کو جواب دیا بلکہ نام لیے بغیر بہت کچھ کہہ ڈالا ’بالکل بھی سخت دن نہیں تھا خاص طور پر جب آپ جانتے ہوں ہوں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جس کو پریشان ہونا چاہیے وہ خود سیلیکٹڈ ہے کیونکہ اس سے جو کام لیا جانا تھا وہ لیا جاچکا اب اس کا متبادل تیار کیا جارہا ہے۔‘

اس ٹویٹ میں متبادل کا اشارہ کس طرف کیا جا رہا ہے یہ واضح نہیں البتہ اس ٹویٹ کے تقریبا 12 گھنٹے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹوزرداری نے بھی  دو ٹویٹ کیے جن میں کسی کا نام لیے بغیر خاصی سخت زبان استعمال کی گئی۔
انہوں نے پہلا ٹویٹ لکھا ’صرف یاد دہانی کے لیے، میرے والد اور سابقہ سویلین صدر جنہوں نے 12 سال جیل میں بغیر کسی جرم کے گزارے ایک فوجی آمر کو اقتدار سے باہر نکالا اور جمہوریت کو واپس لائے، اوراس بات کا یقین کروایا کہ جمہوریت چلتی ہے ، نہ صرف ان کے پانچ سال پورے ہوں بلکہ دھاندلی کے باوجود جمہوریت آگے منتقل بھی ہوئی۔‘
اسی ٹویٹ کے ذیلی ٹویٹ میں انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’ان کو(والد) ایک سال غیر قانونی طور پر جیل میں رکھنے کے بعد 2019 میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ تو اسی دوران جاہل ان سے ڈیل کی باتیں منسوب کر رہا ہے۔ کون سی ڈیل ہے جس میں میرے والد کا نام ابھی تک ای سی ایل پر ہے۔ اور وبا کے دنوں میں تسلسل کے ساتھ ان کو عدالت بلایا جا رہا ہے۔ اور وہ بھی ایسی عدالت جو پنڈی میں ہے اور جس کی پہلے کوئی قانونی نظیر نہیں۔‘
انہوں نے نام لیے بغیر بس ایک شخص کو مخاطب کرتے ہوئے جاہل قرار دیا ہے۔ چونکہ ان ٹویٹس میں کسی پر براہ راست کسی کا نام نہیں لیا گیا لیکن پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر تجزیہ کار عارف نظامی ٹویٹر پر ان بیانات کو سرد جنگ سے تعبیر کرر ہے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ’یہ سیدھی سیدھی سرد جنگ ہے۔ مریم کے ٹویٹ میں اگرچہ کسی کا نام نہیں لیا گیا لیکن ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ آصف علی زرداری نے تو جو کچھ کہا ہے وہ کھل کر کہا ہے اور سب کے سامنے کہا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک جذباتی ٹویٹ ہے اگر نواز شریف صاحب نے اپنی صاحبزادی کو سیاست کا دارالعوام سونپ دیا ہے تو اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ انہیں سیاست کے تمام رموز ازبر ہوگئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں یہ ایک غیر ضروری ٹویٹ تھی۔ اسی طرح بختاور بھٹو نے بھی نام لیے بغیر ایک ٹویٹ کی ہے جو مجھے لگ رہا ہے کہ ایک طرح کا جواب ہو سکتا ہے لیکن حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کس کو سنا رہی ہیں۔ لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہورہا ہے کہ ایک غیر ضروری اور غیر سیاسی سرد جنگ میدان کے بغیر شروع کردی گئی ہے جو دونوں جماعتوں کے لیے درست نہیں۔‘ 

شیئر: