Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مودی کا دورہ بنگلہ دیش: پُرتشدد جھڑپوں کے بعد ہزاروں افراد کا مظاہرہ

انڈین وزیراعظم کے دورے کے موقع پر جھڑپوں میں پانچ افراد ہلاک ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش میں سنیچر کو ہزاروں افراد انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ بنگلہ دیش کے خلاف ایک دن پہلے احتجاج کے دوران  پولیس تشدد کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک دن قبل انڈین وزیراعظم کے دورے کے موقع پر سخت گیر مذہبی گروپ اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس تشدد کا آغاز ڈھاکہ کی مرکزی مسجد سے ہوا تھا جو بعد میں کئی اضلاع تک پھیلا اور اس میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔
بنگلہ دیش بارڈر گارڈ کے ترجمان نے بتایا کہ جمعے کی شب سے فوج تعنیات کی گئی ہے تاہم تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
سوشل میڈیا پر تشدد کے واقعات کے حوالے سے مواد شیئر کرنے کے بعد حکام نے بظاہر فیس بک تک رسائی بھی محدود کر دی ہے۔
سنیچر کو پولیس تشدد اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے دورے کے خلاف ہزاروں افراد نے احتجاج کیا۔
سخت گیر مذہبی جماعت حفاظت اسلام کی جانب سے ملک گیر احتجاج کی اپیل کی گئی تھی۔ حفاظت اسلام کے ہزاروں مظاہرین نے ہاٹھ ہزاری میں احتجاج کیا۔ جمعے کو اس علاقے میں بدترین تشدد دیکھنے آیا تھا۔

مذہبی جماعتوں کے افراد ڈھاکہ کے مرکزی مسجد میں بھی جمع ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

حفاظت اسلام کے ترجمان زکریا نعمان فیاضی نے اے ایف پی کو بتایا کہ دس ہزار کے قریب ہاٹھ ہزاری مدرسہ کے طالب علم سڑک پر تھے جس کی وجہ سے ایک اہم شاہراہ بند ہوگئی تھی۔
ہاٹھ ہزاری کے ایک حکومتی نمائندے روح الامین کا کہنا ہے کہ حفاظت اسلام کے حامیوں نے ٹریفک روکنے کے لیے عارضی دیواریں لگائی اور انہوں نے سڑک بھی کھودی لیکن اس دوران کوئی تشدد نہیں ہوا۔
چٹاگانگ کے ایک سینیئر پولیس افسر محمد جہانگیر کے مطابق ہاٹھ ہزاری ٹاؤن میں بارڈر گارڈ، پولیس اور ایلیٹ ریپڈ ایکشن بٹالین کے اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
پولیس انسپکٹر سید المصطفیٰ نے اے ایف پی کو بتایا کہ شمالی ضلع حبی گنج میں پولیس نے دو سو کے قریب مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس فائر کیے۔
انہوں نے کہا کہ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور تشدد کرنے پر 10 افراد کو گرفتار بھی کیا۔
ایک مقامی اخبار منابجمن کے مطابق کم از کم 50 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
مقامی میڈیا نے ڈھاکہ کے شمال میں غازی پور کے علاقے میں بھی جھڑپوں کے بارے میں رپورٹ کیا ہے۔

انڈین وزیراعظم نریندر بنگلہ دیش کے دو روزہ دورے پر ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

دارالحکومت ڈھاکہ میں اسلامی جماعتوں کے سینکڑوں ارکان ملک کی سب سے بڑی مسجد بیت المکرم میں جمع ہوئے۔
اے ایف پی کے نامہ نگار کے مطابق انڈین وزیراعظم مودی کے خلاف جو نعرے لگا رہے تھے وہ حفاظت اسلام کے حامی تھے۔

ہلاکتوں کے خلاف ہڑتال کی کال

پر تشدد مظاہرے ایسے وقت میں ہوئے جب بنگلہ دیش آزادی کے 50 سال پورے ہونے پر گولڈن جوبلی منا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ملک میں بڑھتی شخصی آمریت، جبری گمشدکیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل کے مطابق ’تشدد کے مناظر کے بعد بنگلہ دیش کے حکام کی جانب سے تشویشناک طرز عمل کے مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے ریسرچر سلطان محمد زکریا کے مطابق ’پرامن احتجاج کا حق، خصوصاً کورونا کی وبا کے دوران، مسلسل حملے کی زد میں رہا جس کا نتیجہ خونی جبر و تشدد کی صورت میں سامنے آیا ہے۔‘
حفاظت اسلام، جس نے جمعے کو درجنوں مظاہرے منظم کیے، نے اتوار کو ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

سخت گیر مذہبی جماعت کے ہزاروں حامیوں نے احتجاج کیا (فوٹو: اے ایف پی)

حفاظت اسلام جماعت قومی سطح پر موجود نیٹ ورک اور ملک میں توہین رسالت کا قانون نافذ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ملک گیر مظاہروں کے لیے مشہور ہے۔
2013 میں حفاظت اسلام کے حامیوں کی ڈھاکہ میں پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں جس میں 50 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔
مودی کے دورے کے خلاف حفاظت اسلام کے علاوہ متنوع گروپس جن میں طالب علم، بائیں بازو کی جماعتیں اور کئی ایک اسلامی گروپس شامل ہیں مظاہرے کر رہے ہیں۔
وہ نریندر مودی اور ان کی حکومت پر انڈیا میں مذہبی منافرت پھیلانے اور مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکسانے کا الزام لگاتے ہیں۔

شیئر: