Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضمانت ہوگئی، اب بیانیہ میاں شہباز کا چلے گا یا مریم نواز کا؟

شہباز شریف کو 28 ستمبر 2020 کو نیب نے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں گرفتار کیا تھا۔ فوٹو: مسلم لیگ ن
مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت کو پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں اہم تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا۔
شہباز شریف اپنے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے برعکس مفاہمت کی سیاست کے زیادہ قائل ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ  منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کے بعد شہباز شریف کے جیل سے باہر آنے سے پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی رونما ہو سکتی ہے جس سے قومی سیاسی منظرنامے اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
دوسری طرف حکومت شاید یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ شہباز شریف اور مریم نواز کی سیاسی حکمت عملی کے فرق کی وجہ سے مسلم لیگ نواز میں اندرونی تقسیم سامنے آ سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ​حکومتی وزرا ایک عرصے سے ن سے ش نکلنے کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ نواز سے شہباز شریف اور حال ہی میں رہا ہونے والے ان کے بیٹے حمزہ شہباز اپنا دھڑا بنا کر الگ ہو جائیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ  شہباز گل نے تو منگل کو ہی اپنے ایک ٹویٹ میں شہباز شریف کی ضمانت کا اشارتاً ذکر کرتے ہوئے اسے مریم نواز کے لیے بری خبر قرار دیا تھا۔
انہوں نے شہباز شریف اور مریم نواز کا نام لیے بغیر لکھا تھا ’آج کوئی اپنا فون بار بار چیک کر رہی ہیں۔ ڈر ہے کہ کہیں ان کا کوئی بہت اپنا جیل سے باہر نہ آ جائے۔ کیونکہ اگر آ گیا تو ان کو مکمل سائیلنٹ موڈ اختیار کرنا پڑے گا۔ جیسے ڈسکہ میں ان کو سین سے غائب ہونا پڑا ویسے ہی ہر جگہ سے سیاسی طور پر غائب ہونا پڑے گا‘۔

سابق وزیراعظم نواز شریف علاج کے سلسلے میں لندن میں مقیم ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

شہباز شریف کی گرفتاری اور مریم نواز کا سیاسی عروج

گو کہ شہباز شریف اکتوبر 2018 میں بھی نیب کے آشیانہ ہاوسنگ سکینڈل میں چند ماہ گرفتار رہ چکے ہیں مگر 28 ستمبر 2020 کو نیب نے انہیں ایک مرتبہ پھر اس وقت گرفتار کر لیا جب لاہور ہائی کورٹ نے ایک اور مقدمے میں ان کی ضمانت مسترد کر تھی۔ اس بار ان پر منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا گیا جس میں خاندان کے دوسرے افراد کو بھی نامزد ہیں۔
ان کی گرفتاری سے مسلم لیگ نواز میں مفاہمت کی سوچ کا بیانیہ کمزور پڑ گیا اور ان کی بھتیجی مریم نواز نے مزاحمت کا بیانیہ اپنا کر خاصی مقبولیت حاصل کی اور اپوزیشن اتحاد کے ساتھ مل کر ملک گیر حکومت مخالف تحریک چلائی جس میں اسٹیبلشمنٹ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اسی دوران مسلم لیگ نواز کو نہ صرف ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں بھرپور کامیابی ملی بلکہ وہ حکومتی گڑھ نوشہرہ میں بھی ضمنی الیکشن جیت گئی۔
تاہم حالیہ چند ہفتوں سے مریم نواز سیاسی طور پر زیادہ سرگرم نظر نہیں آ رہیں گو کہ گا ہے بگاہے ان کی ٹویٹس سامنے آتی ہیں تاہم ان کے ٹوئٹر پر خاموشی کو شہباز گل جیسے حکومتی مشیروں نے بھی نوٹ کیا اور اس  پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے کسی ’ڈیل‘ کا شاخسانہ بھی قرار دیا۔
دوسری طرف مسلم لیگ نواز کی ترجمان مریم اورنگزیب کے مطابق مریم نواز کی سیاست سے عارضی دوری کی وجہ طبیعت کی خرابی تھی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطاق ن لیگ میں ووٹ بینک نواز شریف کا ہے۔ فائل فوٹؤ: روئٹرز

شہباز شریف کی واپسی کیا ن سے ش نکلے گی؟

اب جبکہ شہباز شریف کی ضمانت منظور ہو چکی ہے اور وہ رہا ہو رہے ہیں تو کیا ان کی پارٹی میں اختلافات ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن میں اختلافات کو نہ شہباز شریف افورڈ کر سکتے ہیں اور نہ ہی نواز شریف۔
’دونوں بھائیوں میں سیاسی نکتہ نظر اور اپروچ کا فرق ہے اور یہ بہت عرصے سے چل رہا ہے تاہم اس کے باوجود دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں کیونکہ شہباز شریف کو پتا ہے کہ ووٹ کی طاقت نواز شریف کے ساتھ ہے اس لیے اختلاف رائے حدود کے اندر ہی رہے گا اور پارٹی میں کسی بغاوت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘۔
مجیب الرحمان شامی کے مطابق شہباز شریف کی رہائی کے باوجود مسلم لیگ اسی طرح ایک قدم آگے دو قدم پیچھے چلتی رہے گی تاہم شہباز شریف کو موقع ملتا ہے تو بہتری آئے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ تبدیلی بذریعہ محاز آرائی نہیں آئے گی بلکہ ووٹ کے ذریعے آئے گی۔ پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی اور اے این پی کے استعفوں کے بعد اپوزیشن تحریک بہت کمزور ہو چکی ہے اور اب کسی تحریک کے ذریعے حکومت ہٹانے کے امکانات تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ 'شہباز شریف کی طاقت ووٹ ہے اور وہ اگر منصفانہ الیکشن کا مطالبہ منظور کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ مسلم لیگ نواز کے لیے اچھی خبر ہوگی اور ان تمام قوتوں کے لیے بھی جو وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔'

اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں اختلافات کے بعد شہباز شریف کے کردار پر تجزیہ کاروں کی نظریں ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز

شہباز شریف کی رہائی سے قومی منظر نامے پر فرق پڑے گا

انگریزی اخبار پاکستان ٹوڈے کے ایڈیٹر عارف نظامی سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کی رہائی سے سیاسی منظرنامے پر فرق پڑے گا۔ ’ ظاہر ہے وہ مسلم لیگ نواز کے صدر ہیں اور اپنا مخصوص نکتہ نگاہ رکھتے ہیں اور وہ اب اس کا اظہار بھی کریں گے اس سے بلواسطہ طور پر مریم نواز کا ہارڈ لائن والا بیانیہ کمزور ہوگا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مفاہمت والے بیانیے کو تقویت ملے گی۔‘
عارف نظامی کے مطابق پی ڈی ایم اتحاد تو شاید اب دوبارہ پہلے جیسی حیثیت میں بحال نہ ہو تاہم مسلم لیگ نواز کے پیپلز پارٹی سے تعلقات اب آہستہ آہستہ بہتر ہو سکتے ہیں۔
اردو اخبار جنگ سے منسلک سنئیر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق شہباز شریف کی رہائی سے سیاسی افق پر فرق پڑے گا اور مسلم لیگ نواز کے مخاصمت والے بیانیے میں کمی آئے گی۔
'شہباز شریف کا اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت والا تعلق ہوگا کیونکہ وہ کھل کر ڈائیلاگ کے حامی ہیں اور کھل کر مفاہمت کی سیاست کرتے ہیں۔'

شیئر:

متعلقہ خبریں