Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیوکلیئر ری ایکٹر کے قریب میزائل حملہ، اسرائیل کی شام میں جوابی کارروائی

اسرائیل کے ڈیمونا قصبے کی فضا سائرن کی آوازوں سے گونج اٹھی جو کسی ممکنہ حملے کا اشارہ تھا (فوٹو: اے پی)
اسرائیل کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ جمعرات کی صبح کو شام سے ایک میزائل جنوبی اسرائیل میں نیوکلیئر ری ایکٹر کے قریب داغا گیا جس کے جواب میں اس نے میزائل لانچر اور شام میں فضائی دفاعی نظام پر حملہ کیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس واقعے میں ایران کی مداخلت کا امکان ہے کیونکہ ایران جو شام میں اپنے جنگجو رکھتا ہے، نے اپنے جوہری پلانٹ پر حملوں کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے بدلہ لینے کا کہا تھا۔
ایران نے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے کی جانے والی امریکی کوششوں کو بھی متاثر کرنے کی دھمکی دی تھی۔
اسرائیلی فوج نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس نے میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کیا تھا تاہم اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ آنے والے میزائل کو روکا گیا، اگرچہ اس کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔
اسرائیل کے ڈیمونا قصبے کی فضا سائرن کی آوازوں سے گونج اٹھی جو کسی ممکنہ حملے کا اشارہ تھا۔ اسی قصبے میں اسرائیل کا ایک نیوکلیئر ری ایکٹر ہے۔

ایرانی تجزیہ کار سعداللہ زارئی نے نطنز پر حملے کے جواب میں اسرائیل کے ڈیمونا ری ایکٹر کو نشانہ بنانے کا مشورہ دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس اے این اے نے کہا ہے کہ دمشق کے قریب اسرائیلی حملے میں چار فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ ایجنسی نے مزید تفصیلات تو نہیں بتائیں تاہم یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس کی فضائیہ کے دفاعی نظام نے ’دشمن کے بہت سے میزائلوں‘ کو روکا ہے جو اسرائیل سے ملحقہ گولان کی پہاڑیوں سے داغے گئے تھے۔
ایران کی جانب سے میزائل حملے کی ذمہ داری کا کوئی دعویٰ یا اس سے متعلق کوئی بیان فوری طور پر سامنے نہیں آیا ہے تاہم سنیچر کو ایران کے اخبار کیہان نے ایرانی تجزیہ کار سعداللہ زارئی کا ایک آرٹیکل شائع کیا تھا جس میں انہوں نے نطنز پر حملے کے جواب میں اسرائیل کے ڈیمونا ری ایکٹر کو نشانہ بنانے کا مشورہ دیا تھا۔
زارئی نے اپنے مضمون میں 'آنکھ کے بدلے آنکھ‘ کے اصول کا حوالہ دیا تھا۔
انہوں نے لکھا تھا کہ ’ڈیمونا میں نیوکلیائی تنصیب کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے کیونکہ نطنر کے واقعے کے جواب کے لیے اس سے کچھ بھی کم مناسب نہیں ہے۔‘

شیئر: