Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان آکسیجن کی قلت سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کر رہا ہے؟

ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق پاکستان میں 800 کیوبک میٹر آکسیجن پیدا کی جا رہی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
انڈیا میں کورونا وائرس کے خوفناک شکل اختیار کرنے کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بھی وائرس کے پھیلاؤ میں اسی طرح کی شدت آسکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی اس حوالے سے خبردار کر چکے ہیں کہ اگر عوام نے احتیاط نہ کی تو انڈیا جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 
انڈیا میں جہاں روزانہ لاکھوں کی تعداد میں کورونا کیسز سامنے آرہے ہیں وہیں یومیہ ہلاکتوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈیا میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہسپتالوں میں مصنوعی آکسیجن کی قلت کے باعث ہو رہا ہے۔ 

پاکستان میں آکیسجن کی پیداوار کتنی ہے اور اس کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں؟

پاکستان میں نجی سطح پر آکسیجن پیدا کرنے والی کمپنیوں نے این سی او سی کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس وقت اپنی استعداد کے مطابق شعبہ صحت کو آکسیجن مہیا کر رہے ہیں، اگر اقدامات نہ کیے گئے تو صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق پاکستان میں اس وقت 800 کیوبک میٹر آکسیجن پیدا ہو رہی ہے جس کا 90 فیصد زیر استعمال ہے۔
اس سوال پر کہ پاکستان ایسے کونسے اقدامات کر رہا ہے کہ انڈیا جیسی صورتحال سے بچا رہے، ڈاکٹر فیصل سلطان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس وقت حکومت پانچ طرح کے اقدامات کر رہی ہے تاکہ ملک میں آکسیجن کی قلت نہ پیدا ہو۔
- آکسیجن کا استعمال اس طرح کیا جا رہا ہے کہ غیر ضروری طور پر اس کا ضیاع نہ ہو۔
- مقامی پیداوار کو فوری طور پر 30 میٹرک ٹن تک بڑھایا جا رہا ہے۔
- وزارت صنعت اضافی آکسیجن سیلنڈر اور آکسیجن کونسنٹریٹر کی درآمد کر رہی ہے۔
- ہنگامی پلان بنایا جا رہا ہے کہ تاکہ صنعت سے آکسیجن کو صحت کی سہولیات کی طرف منتقل کیا جا سکے۔
- چین اور ایران کے ساتھ اضافی مقدار کی درآمد کے لیے بھی مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔‘

پاکستان میں کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے فوج تعینات کی گئی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت نوشین حامد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’این سی او سی نے ملک میں آکیسجن کی قلت نہ پیدا ہونے کے لیے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے اور اس سلسلے میں ہسپتالوں کو ہدایت جاری ہیں کہ تمام غیر ضروری سرجریز کو ملتوی کردیا جائے تاکہ آپریشن تھیٹرز اور دیگر وارڈز میں استعمال ہونے والی آکسیجن کو کورونا مریضوں کے استعمال میں لایا جا سکے۔‘ 
نوشین حامد کے مطابق ’ملک میں اس وقت کورونا مریضوں کی تعداد پانچ ہزار کو پہنچ چکی ہے جو کہ ہسپتالوں میں موجود گنجائش کی آخری حد کو چھو رہی ہے، پہلی لہر میں تشویشناک مریضوں کی تعداد تین ہزار تین سو تھی لیکن اس کے بعد اڑھائی سے تین ہزار آکسیجن بیڈز مزید لگائے گئے ہیں تاکہ ہسپتالوں کی گنجائش کو بڑھایا جاسکے۔‘ 
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے حکومتی اقدامات میں تیزی لانے پر زور دیا ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر انڈیا جیسی صورتحال کا سامنا رہا تو ہمارے پاس بچنے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہوگا کیونکہ انڈیا کا شعبہ صحت پاکستان سے کافی بہتر ہے۔ 
’ایک ماہ پہلے جو صورتحال انڈیا کو تھی آج ہم وہیں کھڑے ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تیاری مکمل رکھیں اور آکیسجن کی پیدوار اور موجودگی کو یقینی بنائیں۔‘ 

پاکستان میں کورونا کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ونٹیلیٹرز کی کمی کا سامنا کیوں کیا جا رہا ہے؟

پاکستان میں کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ملک میں ونٹیلیٹرز کی قلت کا سامنا تھا تاہم چند ماہ بعد وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان اب وینٹی لیٹرز بنانے والا ملک بن چکا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں 570 کورونا کے مریض وینٹی لیٹرز پر موجود ہیں اور مجموری طور پر 80 فیصد وینٹی لیٹرز زیر استعمال ہیں۔ 
دوسری جانب حال ہی میں فواد چوہدری کی جگہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی مقرر ہونے والے شبلی فراز کا کہنا ہے پاکستان کے تیار کردہ وینٹی لیٹرز کارآمد نہیں، پاکستانی وینٹی لیٹر 16 میں سے صرف 4 فنکشنز پر پورا اترتے ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق اسلام آباد میں نسٹ یونیورسٹی کے دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شبلی فراز نے کہا کہ ’ہمارے پاس کورونا ایمرجنسی کے لیے آکسیجن اور ضروری سٹاک موجود نہیں ہے، این آر ٹی سی اور نجی کمپنیاں وینٹی لیٹر بنا رہی ہیں لیکن ہمارے وینٹی لیٹر 16 میں سے صرف 4 فنکشنز پر پورا اترتے ہیں۔‘
ڈاکٹر نوشین حامد کے بقول ’پاکستان میں مقامی سطح پر تیار ہونے والے وینٹی لیٹرز کا ڈیزائین منظور ہو چکا ہے لیکن وسیع پیمانے پر اس کی تیاری نہیں ہو رہی۔‘ 
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کہتے ہیں کہ ’حکومت کو پہلے تو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو وینٹی لیٹرز تک پہنچنے سے ہی بچائے لیکن اگر خدانخواستہ ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے تو ہمیں وینٹی لیٹرز کی کمی کو پورا کرنے کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمارے پاس تربیت یافتہ سٹاف کتنا موجود ہے۔‘

پاکستان میں چالیس سال سے زائد عمر کے لوگوں کی ویکسینیشن کا آغاز بھی کیا جا رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ وینٹی لیٹرز بنانے کا دعویٰ تو ہم نے کر لیا ہے لیکن ہمارے آس پاس اتنی بڑی تعداد میں وینٹی لیٹرز چلانے والا تربیت یافتہ سٹاف ہی موجود نہیں۔ 
’وینٹی لیٹر آپریٹ کرنے کے لیے باقائدہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر ڈاکٹر کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کیسے آپریٹ کیا جائے بلکہ اس کے لیے ایک خاص تربیت یافتہ سٹاف کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے؟

ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق جس صورتحال کا اس وقت پاکستان کو سامنا ہے بالکل ایسی ہی صورتحال ایک ماہ پہلے انڈیا کو تھی، اگر رمضان کے آخری عشرے میں اور عید کے موقع پر بندشوں پر عملدرآمد کر لیا گیا تو اگلے ایک ماہ میں کیسز میں کمی آسکتی ہے، لیکن اس سب کا دار و مداد کورونا ایس و پیز پر عملدرآمد سے جڑا ہوا ہے۔ 
عالمی ادارہ صحت کے سابق رکن اور ماہر وبائی امراض ڈاکٹر رانا جواد اصغر کے مطابق راولپنڈی اور اسلام آباد میں کیسز بڑھنے کی رفتار میں کمی آچکی ہے لیکن کراچی، لاہور اور پشاور میں کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید سنگین ہوسکتی ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ رمضان میں ایس او پیز پر اگر سختی سے عملدرآدمد کیا تو آئندہ تین ہفتوں کے بعد کیسز میں کمی آئے گی لیکن ہسپتالوں پر دباؤ برقرار رہے گا۔ 
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت 90 فیصد آکسیجن استعمال ہو رہی ہے جس کا مطلب ہے اپنی گنجائش کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔‘

شیئر: