Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں پاکستانیوں کی شکایات کی تحقیقات

سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس سوال نامے کو باقی افراد تک بھی پہنچائیں (فوٹو: ٹوئٹر)
سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے درپیش مشکلات اور سفارتی عملے کی مبینہ بدسلوکی کی شکایات کی تحقیقات کے لیے قائم اعلی سطح کی فیکٹ فائنڈنگ تحقیقاتی کمیٹی نے کام شروع کر دیا ہے۔
کمیٹی نے سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کو تحقیقات میں معاونت کی درخواست کرتے ہوئے سفارت خانوں میں خدمات کے معیار، عملے کے رویے، شکایات کے ازالے کے بارے میں معلومات اور بہتری کے لیے تجاویز بھی مانگ لی ہیں۔
کمیٹی نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بالعموم اور سعودی عرب میں مقیم پاکستانی افراد کے لیے بالخصوص ایک سوال نامہ تیار کیا ہے جس میں 20 سوالات کے جوابات مانگے گئے ہیں۔
سوال نامے کے جواب دینے والے افراد اگر چاہیں تو اپنی شناخت ظاہر کریں اور اگر نہ چاہیں تو وہ ظاہر کرنے کے پابند نہیں ہیں۔
بیرون ملک مقیم شہریوں کے لیے تیار کیے گئے سوال نامے میں ابتدائی ذاتی معلومات کے علاوہ پوچھا گیا ہے کہ  وہ کسی کام کے لیے گزشتہ پانچ سال میں وہ کتنی بار سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے یا قونصل خانے گئے ہیں؟ اس دوران سفارتی عملے کا رویہ کیسا تھا؟ اگر خدمات کا معیار اچھا نہیں تھا تو اس میں کیا خرابیاں تھیں؟
اس کے علاوہ پوچھا گیا ہے کہ اپنا کام کرانے میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ اگر کام نہیں ہوا تو ایسا کتنی بار ہوا؟ کام نہ ہوسکنے کے بارے میں کسی مجاز افسر نے مطمئن کیا؟
کیا سفارت خانے کے کسی عملے کے فرد نے خود یا کسی ایجنٹ کے ذریعے رشوت کے ذریعے کام کر دینے کی پیش کش کی؟ کیا سعودی عرب میں پاکستانی سفارتی عملے کے خلاف شکایات کے ازالے کا کوئی نظام موجود ہے؟ اگر ہے تو اس پر شکایت کرنے سے کیا ردعمل ملتا ہے؟
سوال نامے میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ اگر پاکستانی شہریوں کو سفارت خانے میں مہیا کی جانے والی خدمات میں بہتری لانے کا موقع ملے تو وہ کیا بہتری لانا چاہیں گے؟

سفارتی عملے کی مبینہ بدسلوکی کی شکایات کی تحقیقات کے لیے قائم اعلی سطح کی فیکٹ فائنڈنگ تحقیقاتی کمیٹی نے کام شروع کر دیا ہے (فوٹو: فیس بک)

ان سوالات کے جواب بھیجنے والوں کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے جوابات کے ساتھ کوئی بھی دستاویز، تصویر یا ویڈیو وغیرہ بھیج سکتے ہیں جبکہ ضرورت پڑنے پر معائنہ کمیشن ان سے رابطہ کرکے مزید معلومات بھی مانگ سکتا ہے۔
بیورو آف امیگریشن کی ویب سائٹ پر دستیاب سوال نامے میں سعودی عرب اور دیگر ملکوں میں مقیم پاکستانی شہریوں کو بتایا گیا ہے کہ ’وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی شکایات پر ریاض میں پاکستانی سفارت خانے اور جدہ قونصلیٹ میں تعینات افسران کی کارکردگی پر اور ان کے طرز عمل پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔
اسی وجہ سے وزیر اعظم حقیقت حال جاننے کے لیے ایک اعلی سطح کی ٹیم مقرر کی ہے جو سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کو خدمات کی فراہمی میں کوتاہی، نااہلی اور خراب رویے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے بھتہ لے کر انہیں مختلف خدمات کے لیے لوٹنے کے الزامات، پاکستانیوں کی شکایات کے ازالے کے لیے موجودہ نظام اور اس میں ناکامیوں کی وجوہات، خدمات کی فراہمی کے لیے سفارت خانے اور قونصل خانوں میں کیا ایس او پیز بنائے گئے اور کیا ان ایس او پیز سے خدمات میں رکاوٹیں یا مزید مشکلات تو نہیں ہو رہیں کے بارے میں حقائق تلاش کرے گی اور ان مسائل کے حل کے لیے سفارشات وزیر اعظم کو بھجوائی جائیں گی۔‘
وزیر اعظم معائنہ کمیشن کے چیئرمین احمد یار ہراج نے اس مقصد کے لیے سید ابو احمد عاکف کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی اعلی سطح کی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ جس میں معائنہ کمیشن کے رکن وقار احمد، وزارت خارجہ کے سپیشل سیکریٹری ڈاکٹر خالد میمن، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت داخلہ ڈاکٹر فخر عالم اور وزارت سمندر پار پاکستانیز سے ڈی جی امیگریشن بیورو کاشف احمد نور شامل ہیں۔

سعودی عرب میں سفارتی عملے کے خلاف پاکستانیوں نے سیٹیزن پورٹل پر شکایات درج کی تھی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس سوال نامے کو باقی افراد تک بھی پہنچائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکے۔
کمیٹی کے ایک رکن نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ’ابتدا میں صرف ایک دن میں ہی سوال نامہ جوابات کے ساتھ واپس جمع کرانے کا کہا گیا تھا تاہم اب سعودی عرب میں مقیم پاکستانی عید کے بعد تک سوال نامہ پر کرکے واپس بھیج سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تحقیقاتی کمیٹی پاکستانیوں کی جانب سے آنے والے جوابات کی روشنی میں سعودی عرب میں سابق سفیر سمیت عملے کے دیگر افراد کو طلب کرکے ان سے بھی موقف لے گی اور کوشش کی جائے گی کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوں۔‘
کمیٹی کے رکن نے بتایا کہ ’وزیر اعظم نے تحقیقات مکمل کرنے کے لیے دیے گئے 15 یوم میں زبانی توسیع کرتے ہوئے کہا ہے کہ بے شک تھوڑا وقت لگ جائے لیکن جامع رپورٹ مرتب کی جائے۔‘
خیال رہے کہ سعودی عرب میں سفارتی عملے کے خلاف پاکستانیوں کی سیٹیزن پورٹل پر شکایات کے بعد وزیر اعظم نے ریاض میں پاکستانی سفیر سمیت عملے کے کچھ ارکان کو واپس بلا کر تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

شیئر: