پاکستان جنوبی ایشیا میں افرادی قوت فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے جبکہ سعودی عرب جنوبی ایشیائی ورکرز کی پہلی منزل بن چکا ہے۔
اس وقت بھی بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں میں سے سب سے بڑی تعداد سعودی عرب میں مقیم ہے جو 26 لاکھ سے زائد ہیں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورہ سعودی عرب میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ہونے والے مذاکرات کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ویژن 2030 کے تحت سعودی عرب کو اگلے 10 سال میں ایک کروڑ افرادی قوت کی ضرورت ہوگی۔ سعودی قیادت نے درکار افرادی قوت میں سے بڑا حصہ پاکستان سے لینے کا وعدہ کیا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
پاکستانیوں کے لیے نئے سعودی ویزوں کے اجرا کا عمل شروعNode ID: 515651
-
سعودی عرب میں پاکستانی ملازمین کی مانگ،’ بھرتیوں کا عمل شروع‘Node ID: 520441
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان اتنی بڑی تعداد میں افرادی قوت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے اور متعلقہ اداروں نے اس حوالے سے کیا تیاریاں کر رکھی ہیں؟
افرادی قوت بھجوانے کے حوالے سے پاکستان کا خطے میں انڈیا اور بنگلہ دیش سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ گذشتہ تین سال میں دیکھیں تو سعودی عرب کو افرادی قوت بھجوانے میں مجموعی طور پر بنگلہ دیش پہلے، پاکستان دوسرے اور انڈیا تیسرے پر نمبر ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں پاکستان سے ایک لاکھ، بنگلہ دیش سے دو لاکھ 57 ہزار جبکہ انڈیا سے 72 ہزار ورکرز سعودی عرب بھجوائے گئے تاہم 2019 میں یہ تعداد پاکستان سے تین لاکھ 32 ہزار، بنگلہ دیش سے تین لاکھ 99 ہزار جبکہ انڈیا سے ایک لاکھ 60 ہزار رہی۔
2020 میں اگرچہ کورونا بندشوں کی وجہ سے بیرون ملک جانے والے ورکرز کی تعداد کم رہی اس کے باوجود پاکستان سے ایک لاکھ 36 ہزار، بنگلہ دیش سے ایک لاکھ 62 ہزار جبکہ انڈیا سے سعودی عرب جانے والوں کی تعداد 44 ہزار تھی۔

تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو 1971 سے لے کر 2021 تک روزگار کے سسلے میں بیرون ملک جانے والے ایک کروڑ 14 لاکھ پاکستانیوں کی تقریباً نصف تعداد نے سعودی عرب کا رخ کیا جن کی تعداد 57 لاکھ کے قریب ہے۔ ان 57 لاکھ میں سے گذشتہ 10 سالوں میں 29 لاکھ 41 ہزار لوگ سعودی عرب میں ملازمتوں کے لیے گئے۔
وزارت سمندر پار پاکستانیز کے حکام کے مطابق ’یہ تعداد گذشہ سال ہی بآسانی 30 لاکھ اور رواں سال 35 لاکھ سے تجاوز کرسکتی ہے تاہم کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے نافذ پابندیوں اور لاک ڈاؤن کے باعث یہ سلسلہ وقتی طور پر رکا ہوا ہے۔‘
حکام نے بتایا ہے کہ ’کورونا کی پہلی لہر کے خاتمے کے بعد تمام اہداف پر نظر ثانی کی گئی تھی اور طے پایا تھا کہ اگلے ایک سے دو سال میں بیرون ملک بھجوائے جانے والے افراد کی تعداد کو چار سے آٹھ لاکھ تک لے جایا جائے گا۔‘
حکام کے مطابق ’ان اہداف کی روشنی میں ابتدائی فوکس سعودی عرب پر ہی تھا کیونکہ وزارت ویژن 2030 اور اس سے جڑی تمام تر ڈویلپمنٹ سے آگاہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2020 کے آخری اور 2021 کے پہلے تین ماہ میں سعودی عرب بھجوائے گئے پاکستانی ورکرز کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد ہے۔‘
انہوں نے بتایا ’پاکستان سے 2015 میں ایک سال میں ساڑھے نو لاکھ تک افراد بیرون ملک بھجوائے گئے تھے اس لیے پاکستان کے پاس بڑی تعداد میں افراد کو بھجوانے اور اس سے متعلق امور نمٹانے کا تجربہ موجود ہے۔‘
