Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کے قدیم صحرا میں ابتدائی انسانی دور کی جھلک

بیضوی اور ناشپاتی کی شکل کے پتھر سے بنے اوزار ملے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب کے شمالی علاقے واہل میں ایسے آثار قدیمہ دریافت ہوئے جو تقریباً تین لاکھ پچاس ہزار سال پرانے ہیں اور ان کا تعلق ابتدائی انسانی سرگرمیوں سے ہے۔
عرب نیوز نے جرنل نیچر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ النسيم پہلا اشولین مقام ہے جس کا تعلق النفود صحرا کے دور سے ہے۔
اشولی ٹیکنالوجی سے مراد بیضوی اور ناشپاتی کی شکل کے پتھروں سے بنے اوزار ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تقریباً 17 لاکھ سال قبل تیار کیے گئے تھے جن کو بعد کے ادوار میں جدید شکلیں دی گئیں۔
ماہرین آثار قدیمہ کے خیال میں کلہاڑی نما یہ اوزار ایک لاکھ 30 ہزار سال قبل تک استعمال ہوتے رہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اشولین کے بارے میں تفصیلی معلومات صرف ایک سائٹ سففقہ تک محدود تھی جو کہ وسطی سعودی عرب میں واقع ہے تاہم اوزار بھی النفود صحرا سے ملے تھے۔
محققین کے مطابق النسیم سے کچھ شواہد ملے کہ یہاں کوئی گہری جھیل تھی، جو غالباً تازہ پانی کی تھی جس کا تعلق پلیسٹوسین کے درمیانی عہد سے تھا، جو کہ ایک لاکھ 30 ہزار سے سات لاکھ 80 ہزار سال پہلے تک کے عرصے کو کور کرتا ہے۔
مملکت کے ہیریٹیج کمیشن کے سی ای او جاسر الہرباش نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’بہت سی دریافت ہونے والی سائٹس پر تحقیق کی جا رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’النفود صحرا میں ہونے والی دریافت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ سعودی عرب میں ایشولی دور کا سب سے پرانا مقام ہے۔‘

محققین کے مطابق النسیم کے علاقے میں کبھی گہری جھیل ہوتی تھی۔ (فوٹو: ایس پی اے)

 گرین عریبین پراجیکٹ (جی اے پی) کے 10 سال قبل ہونے والے سرویز سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ پلیسٹوسین دور میں جزیرہ نما عرب موسمیاتی تبدیلیوں سے گزرا جس نے براعظموں اور اس کے درمیان انسانوں کی نقل و حرکت اور تقسیم کو متاثر کیا۔
اشولین لوگوں کے بارے میں یہ بات درست ہے کہ وہ اس دور کے دوسرے لوگوں کی نسبت پانی کے دخائر سے زیادہ قربت رکھتے تھے۔
النسیم میں پتھروں کے وہ مختلف اوزار موجود ہیں جو پلیسٹوسین دور کے لوگوں کے استعمال میں رہے جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد آبیدہ ہونے والے ’گرین عریبیہ‘ میں بار بار آئے۔
سائٹ ایک گہری تنگ اترائی اور ابھری ہوئی چٹانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں سے ابتدائی حجری عہد سے متعدد نوادرات بھی دریافت ہوئے تھے۔            
تقریباً 354 اشیا اکٹھی کی گئیں جو بنیادی طور پر کلہاڑی نما اوزاروں اور ٹکڑوں پر مشتمل تھے۔
سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ جو قدیم اشیا ملیں ان کا تعلق جھیل کے ساتھ تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملنے والے اوزار النفود صحرا سے ملنے والے اوازار سے ملتے جلتے ہیں۔
کچھ پتھروں کے ٹکڑوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو خام شکل میں لایا گیا جب کہ کچھ کو جانچنے کے بعد مستر کر دیا گیا تھا۔
 

شیئر: