Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہفتے میں 55 گھنٹے کام کرنے سے موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے‘

یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کورونا وائرس کی وجہ سے کام کرنے کے طریقہ کار تبدیل ہوئے ہیں (فوٹو: پیکسالے)
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ہفتے میں 55 گھنٹے سے زیادہ کام کرنے سے دل کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں جس سے موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ نتیجہ پیر کو اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی رپورٹ میں اخذ کیا گیا ہے۔
یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کورونا وائرس کی وجہ سے کام کرنے کے حالات تبدیل ہوئے ہیں اور لوگوں کو دیر تک کام کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ رپورٹ ’انوائرمنٹ انٹرنیشنل‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے اور دیر تک کام کرنے کے خطرات کے حوالے سے یہ پہلی رپورٹ ہے۔
اس رپورٹ کا ڈیٹا درجنوں ایسی تحقیقات سے حاصل کیا گیا ہے جن میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔
عالمی ادارہ صحت کے شعبہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور صحت کی ڈائریکٹر ماریہ نیرا نے کہا ہے کہ ’ہفتے میں 55 گھنٹے یا اس سے زیادہ کام کرنا صحت کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔‘
’یہ وقت ہے کہ حکومت، مالکان اور ملازمین یہ جان لیں کہ زیادہ کام سے وقت سے پہلے موت واقع ہو سکتی ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہفتے میں 35 سے 45 گھنٹے کام کرنے کے مقابلے میں 55 گھنٹے یا اس سے زیادہ کام کرنے سے دل کا رورہ پڑنے کے مواقع 35 فیصد جبکہ دل کو آکسیجن نہ پہنچنے کی بیماری کے چانسز 17 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او اور آئی ایل او کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2016 میں دنیا میں 55 گھنٹے یا زائد کام کرنے سے تین لاکھ 98 ہزار افراد دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوئے اور تین لاکھ 47 ہزار دل کی دیگر بیماریوں سے مارے گئے۔
زیادہ تر اموات 60 سے 79 برس کے افراد کی ہوئیں جنہوں نے 45 سے 74 برس کی عمر میں 55 گھنٹے یا اس سے زائد کام کیا۔
ڈبلیو ایچ او نے یہ بھی کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے زیادہ کام کرنے کے رجحان میں تیزی آ سکتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل تیدروس ادہانوم نے کہا کہ ’کورونا وائرس کی عالمی وبا نے کام کرنے کے طریقہ کار کو بدل کر رکھ دیا ہے۔‘

شیئر: