Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اتر پردیش: بابری مسجد انہدام کے بعد ایک اور مسجد مسمار، مسلمانوں میں خوف و ہراس

اتر پردیش کے شہر رام سنیہی گھاٹ میں واقع یہ 112 سال پرانی مسجد ہے۔ فوٹو انڈیا ٹوڈے
انڈین ریاست اتر پردیش میں مقامی انتظامیہ کے قدیم مسجد مسمار کرنے کے بعد مسلمان آبادی میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی کی مقامی انتظامیہ نے عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیر کے روز مسجد مسمار کر دی تھی۔
اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں سنہ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہمسایہ شہر رام سنیہی گھاٹ میں واقع 112 سال پرانی مسجد کی مسماری مسلمان کمیونٹی کے خلاف سب سے اشتعال انگیز اقدام ہے۔
ہائی کورٹ نے 31 مئی تک مسجد مسمار کرنے سے منع تھا۔ مقامی انتظامیہ نے عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسجد کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد پیر کے روز مسجد مسمار کر دی۔
مسجد کی کمیٹی کے ایک رکن محمد نسیم نے عرب نیوز کو بتایا کہ کئی دہائیوں سے اس مسجد میں لوگ نماز پڑھتے آرہے ہیں، مسجد مسمار کرنے کے واقعے سے لوگوں کو صدمہ ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مسلمان کمیونٹی کو ڈر ہے کہ مقامی انتظامیہ واقعے کے خلاف کسی بھی قسم کا ردعمل روکنے کے لیے گرفتاریاں کرے گی۔
کمیٹی کے رکن محمد نسیم نے سوال اٹھایا کہ مسجد مسمار کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی بالخصوص ایسے وقت پر جب پوری ریاست کورونا کی وبا کے خلاف لڑ رہی ہے۔
انڈیا کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے یوگی آدتیہ ناتھ برسر اقتدار ہیں۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مسلمان مخالف جذبات کے لیے جانے جاتے ہیں۔

سنہ 1992 میں ہندو کمیونٹی نے بابری مسجد کو منہدم کیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

مقامی انتظامیہ نے کسی بھی قسم کے غلط اقدام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مسجد اس مقام پر موجود ہی نہیں تھی۔
ضلع بارہ بنکی کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ادارش سنگھ نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’مجھے کسی مسجد کے تباہ ہونے کا علم نہیں ہے، یہ ایک غیر قانونی رہائشی پراپرٹی تھی۔‘
اتر پردیش کے مرکزی سنی وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر فاروقی کے مطابق سب ڈویژن ضلعی مجسٹریٹ کے گھر کے سامنے یہ مسجد کئی سالوں سے اسی مقام پر موجود ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ مسجد کیسے غیر قانونی عمارت ہو سکتی ہے، یہ سنی وقف بورڈ کے ساتھ رجسٹرڈ ہے۔
15 مارچ کو ضلعی انتظامیہ نے مسجد کی ملکیت سے متعلق اس کی کمیٹی سے پوچھا تھا۔
کمیٹی کے مطابق تمام کاغذات اسی دن جمع کر دیے گئے تھے اور  ممکنہ مسماری کے خوف سے ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کر دی تھی۔ عدالت نے کہا تھا کہ ضلعی انتظامیہ صرف مسجد کی ملکیت سے متعلق کاغذات دیکھنا چاہتی ہے۔

بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

مسجد کمیٹی کے رکن محمد نسیم کے مطابق مسلمان کمیونٹی میں خوف و ہراس پھیلانے کی غرض سے مقامی انتظامیہ نے 28 لوگوں کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا جنہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا، جبکہ ایک شخص پر نیشنل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
شہر رام سنیہی گھاٹ کی 30 ہزار آبادی میں سے تقریباً آدھی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
رہائشی اسرار احمد نے بتایا کہ مقامی انتظامیہ کسی کو بھی مسمار شدہ مسجد کے قریب نہیں جانے دے رہی۔
سماجی کارکن دیپک کبیر کے مطابق بی جے پی حکومت کی کورونا کی روک تھام میں ناکامی سے پارٹی کے ووٹرز متاثر ہوئے ہیں، جس کے بعد بی جے پی ایک مرتبہ پھر تفریقی اور منقسم سیاست کا طریقہ کار اپنا رہی ہے تاکہ اگلے انتخابات سے پہلے ووٹرز کا اعتماد حاصل کیا جائے۔

شیئر: