Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلمانوں کا کردار کیسا ہو؟

 آج بھی ہم اگر اپنی تہذیب اور اپنے کلچر پر پورے طور پر عمل پیرا ہوجائیں تو بادِسموم کے باوجود ہم کامیابی سے ہم کنار ہوںگے 
 
مولانا نثار احمد حصیر القاسمی۔ حیدرآباد دکن
 
زندگی کی گاڑی بہتر طور پر رواں دواں رکھنے کے لئے انسان کو جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اس میں مہارت ودسترس رکھنے کو اہل علم نے ثقافت و کلچر کا نام دیا ہے، یعنی ذہانت و سمجھداری اور خوبی کے ساتھ انسان کا اپنی زندگی گزارنا، اپنی زندگی کی ضروریات کو بہتر طور پر انجام دینا اور اپنے طرز عمل سے زندگی کو پُر بہار و پر مسرت بنانا انسانی کلچر ہے، اس اعتبار سے اسلامی کلچر کا مفہوم کیا ہو سکتا ہے، ہر کوئی اس کا اندازہ کر سکتا ہے۔ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جب ہم مسلمان کہلاتے ، دین و ایمان کے دعویدار ہیںاور اسلام کو اپنا مذہب قرار دیتے اور اس سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ، تو ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہماری تہذیب اور ہمارا کلچر ہم سے کن باتوں کا متقاضی اور کس طرح زندگی گزارنے کا خواہش مند ہے ۔
 
ہماری اس دنیا میں ایک دو نہیں سیکڑوں تہذیب و کلچر ہیں۔ دنیا ترقی کر رہی اور نت نئے ایجادات معرض وجود میں آرہے ہیں ، باہمی روابط و اتصال کے نئے نئے آلات و وسائل ایجاد ہوچکے ہیں ، جس سے دنیا کے مختلف کلچروں اور تہذیبوں سے واقفیت حاصل ہو رہی ہے مگر اس وقت دنیا کے اندر جو بھی تہذیبیں ہیں ان میں سب سے اہم 2ہی ہیں۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ساری دنیا کے اندر موجود تہذیبوں میں اس وقت 2ہی طرح کی تہذیب ہیں: ایک تو اخلاقی تہذیب و کلچر ہے۔ اس کلچر کے اندر اصول و ضوابط، اخلاق و اقدار حدود و قیود، تعلیمات و تفہیمات، اوامر و نواہی اور واضح ہدایات ہیں۔ اس میں ان قیود سے تجاوز کرنا اور اس کے حدود کو عبور کرنا درست نہیں بلکہ اس کی پابندی کرنا مذہب کی اولین شرط ہے۔اسے ہم اسلامی تہذیب یا اسلامی کلچر کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کلچر کی اساس و بنیاد کتاب و سنت پر ہے اور کتاب و سنت کی تعلیمات ہی کی روشنی میں بندہ یہ ایمان و یقین رکھتا ہے کہ اس کے ہر ہر عمل کا خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ایک دن حساب لیا جائے گا ، اس سے باز پرس کی جائے گی اور یہ دن ایسا ہوگا کہ کوئی کسی کے کام آنے والا نہیں ہوگا:’’جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آئی گی،لیکن فائدہ والا وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بے عیب دل لے کرجائے۔‘‘ (الشعراء89,88)‘‘۔
 
دوسرا غیر اخلاقی کلچر ہے ۔ اس کلچر کے حاملین کا خیال ہے کہ انسان کو ہر طرح کی مکمل آزادی حاصل ہے، اس کو اختیار ہے کہ وہ جو چاہے کرے، جس طرح چاہے لطف اندوز ہو، اس کے تصرفات و حرکات و سکنات کے لئے نہ کوئی قید و بند ہے نہ کسی طرح کی رکاوٹ ، اس تصور کے نتیجہ میں انہوں نے انسانوں کے لئے ایسی چیزوں کو بھی مباح کر لیا جو انسان کے شایان شان نہیں تھابلکہ انسانی فطرت کے مغایر اور یکسر حیوانیت تھی۔ انہوں نے ہم جنس پرستی میں ، شادی کے بغیر بچے پیدا کرنے میں اور اس طرح کی بہت سی بے اعتدالیوں میں کسی طرح کی کوئی خرابی و برائی محسوس نہیں کی۔انہوں نے ہر طرح کی اخلاقی گراوٹ و خرابیوں کو گلے لگا لیا۔ اس کلچر کے حاملین کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں رہا، بس ایک ہی مقصد تھا کہ جسم ِانسانی کی جو بھی خواہشات ہیں اسے پورا کر لیا جائے ۔
 
زندگی تو بس ہماری یہی دنیاوی زندگی ہے جس میں ہم مرتے اور جیتے ہیں اور بس ہم دوبارہ اٹھائے جانے والے نہیں  (المومنون37)۔
اور کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو بس یہی زندگی ہے، اسی میں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور ہمیں ہلاک نہیں کرتا مگر یہی زمانہ حالانکہ ان کے پاس اس کا کوئی علم نہیں ،یہ لوگ محض ظن (وگمان) سے کام لیتے ہیں(الجاثیہ24)۔
 
ان کا وہم ہے کہ نہ آخرت کی کوئی زندگی ہے اور نہ حساب و کتاب یا سزاء و جزاء، فطری طور پر یہ دونوں کلچر اور یہ دو نظریے و تہذیب آپس میں کبھی مل نہیں سکتے اور نہ کسی ایک مقصد پر یکجا و مجتمع ہوسکتے ہیں، اگرچہ ان کا مقصد بظاہر انسانیت کا مفاد ہی کیوں نہ ہو۔
 
کہو ، کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا اور آنکھوں والا؟ یا کہیں اندھیرے اور روشنی میں بھی باہم یکساں ہوسکتے ہیں؟ کیا ان لوگوں نے اللہ کے لئے کچھ ایسے شریک ٹھہرا رکھے ہیںجنہوں نے اللہ کی تخلیق کی طرح کچھ پیدا کیا ہو؟ کہو اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے ہر چیز کا اور وہی ہے یکتا سب پر غالب ۔(الرعد16)۔
 
ایسا لگتا ہے کہ غیر اخلاقی کلچر کے حاملین اخلاقی کلچر کے لوگوں کو اس نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ جیسے وہ ان کے کٹر دشمن ہوںاور وہ ان سے ہر محاذ پر نبرد آزما رہتے ہوں ۔ اس خیال و تصور کی بنیاد پر ہی ہم دیکھتے ہیںکہ انہوں نے اپنا مقصدِ زندگی اخلاقی کلچر اور اخلاقی اقدار کو کچلنا ، دبانا اور اسے ختم کرنا بنا لیا ہے۔بدیہی طور پر یہ اسی وقت ہوسکتا اور ان کا یہ مقصد اسی وقت کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے جبکہ اس کو ختم کرنے اور اس کی بیخ کنی کرنے سے پہلے خود اسلام کو ختم کر دیا جائے اور اس کی جڑیں اکھاڑ دی جائیں۔آج ہم اپنی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ساری دنیا میں اسلام کی بیخ کنی کے لئے جنگ چھیڑ دی گئی ہے، یہ جنگ کسی ایک نوعیت کی نہیں بلکہ ہمہ نوعیت ہے۔ ہر طرح کی جنگ لڑی جارہی ہے، میدان جنگ میں مہلک ہتھیاروں اور جدید ترین بھاری اسلحوں سے بھی لڑی جا رہی ہے، فکری جنگ بھی چھڑی ہوئی ہے، تہذیبی جنگ بھی ہو رہی ہے اور کوئی ایسا گوشہ نہیں کہ اس راہ سے اسلام اور امت مسلمہ پر حملہ نہ کیا جارہا ہو۔ان جنگوں اور حملوں کا مقصد ایک ہے، خواہ اس کے لڑنے والے کسی مذہب سے تعلق رکھنے والے اور دنیا کے کسی بھی خطے کے باشندے ہوں، غیر اخلاقی کلچر و تہذیب اور الکفر ملۃ واحد کی بنیاد ان تمام غیر اخلاقی تہذیبوں کا واحد مقصد اونچے اقدار اور اخلاقیات کا خاتمہ کرنا ہے جسے ختم کرنے سے پہلے اسلام کو ختم کرنا اور اسے راستے سے ہٹانا ان کی نگاہ میں ضروری ہے۔اس کی شروعات صلیبی جنگ سے ہوئی، پھر تاتاریوں کی یلغار کو جھیلنا پڑا جنہیں بین الاقوامی صلیبی طاقتوں کی جانب سے مالیہ فراہم کیا جا رہا تھا اور اب دنیا کے بیشتر خطوں اور خود عالم اسلام میں یہودی سازشوں اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کی تدبیروں و منصوبہ بندیوں سے جنگ کا بازار گرم ہے اور ساتھ ہی ساتھ فکری جنگ بھی چھیڑ دی گئی ہے ۔ کہیں قرآن میں تحریف کی کوشش کی جاتی ہے، کہیں اس کی بعض آیتوں کو نکالنے کا مطالبہ کیا جاتا ، کہیں پرسنل لاء کو نشانہ بنایا جاتا، کہیں حقوق نسواں کا رونا رویا جاتا، کہیں اہانت رسول کے جرائم انجام دیئے جاتے اور کہیں اسلامی روایات اور اس کے صاف و شفاف قوانین کو مطعون کیا جاتا ہے، اور کہیں دروغ گوئی ،افترا پردازی اور آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اسلام کی صورت مسخ کرنے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر اللہ تعالیٰ یقینا اپنے معاملہ پر غالب ہے، اور آج نہیں تو کل ضرور ظلم و نا انصافی کرنے والوں کو پتا چلے گا کہ وہ لوٹ کر کدھر آئے اور جھوٹ کا انجام کیا ہے، انہیں ضرور اپنے کئے پر پچھتاوا ہوگا۔
 
اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے لئے فکری وتہذیبی جنگ میدانی جنگ سے زیادہ خطرناک ہے۔زمینوں اور ملکوں وشہروں پر قبضہ کرنا عقلوں و ذہنوں پر قبضہ کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ زمین اور ملک و شہر کو قابض گیر طاقت کے ہاتھوں سے چھڑا کر اسے آزاد کرالینا آسان ہے، مگر عقلوں پر اگر قبضہ ہوجائے تو پھر اسے آزادی دلانا آسان نہیں بلکہ بہت مشکل ہے۔اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ خود ہم میں سے بعض جو خاندانی مسلمان ہیںاور اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور کسی دوسرے مذہب سے وابستہ ہونا پسند نہیں کرتے، ان کی عقلوں پر قبضہ کر لیا گیا، انہی خودساختہ نظریات نے اپنا اسیر اور ذہنی غلام بنا لیا، ان کا دماغ سیکولرازم، اشتراکیت اور اس جیسے افکار کا اسیر ہوگیا، اور وہ اب بھی اس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، اسے گلے لگائے ہوئے اور اس کے اسیر بنے ہوئے ہیں جبکہ دنیا پر اور خود ان پر واضح ہو چکا ہے کہ یہ نظریہ ناکام ہوچکا اور بہت کم عمر ی میں اس کی ناکامی عیاں ہوچکی ہے۔
 
ہم جانتے اور سمجھتے ہیں کہ امت مسلمہ ایسی امت ، ایسی قوم، ایسی ملت اور ایسی تہذیب و کلچر کی حامل ہے کہ اسکے پاس اونچے اقدار ہیں، اس کے پاس اخلاقیات ہیں، اس کے پاس اسلامی ورثہ ہے ، اس تہذیب نے اپنی حیثیت، اپنی قدر و قیمت، اپنی رفعت و بلندی اور بہتری وخوبی اس وقت تک ثابت کی ہے اور کرتی رہی ہے جب تک کہ مسلمان اسے تھامے رہے۔ آج بھی ہم اگر اپنی تہذیب اور اپنے کلچر پر پورے طور پر عمل پیرا ہوجائیںتو بادِسموم کے باوجود ہم کامیابی سے ہم کنار ہونگے اور دوسروں کو بھی خوشگوار و پر امن زندگی فراہم کرسکیں گے ۔ہم جب اخلاقیات اور اونچے اقدار کے حامل ہیں تو پھر ہم دوسری غیر اخلاقی تہذیبوں کے سامنے کیوں دست سوال پھیلائیں اور گدا گر ی کا پیالا پیش کریں؟ ہم تو دینے والے ہیں، لینے والے نہیں، ہم نے دنیا کو روشنی دی اور جینے کا سلیقہ دیا ہے، لوگوں نے ہماری تہذیب سے بہت کچھ لیا ہے ۔
 
موجودہ دور کی ترقی اور اس کے وسائل کے طفیل انسانی عقل تقلید محض سے آزاد ہوچکی ہے۔مہذب انسان فکری آزادی چاہتا ہے ، یہ فکری آزادی فردِ مسلم سے متقاضی ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے دین و مذہب کے ثوا بِت اور مسلمات پر ثابت قدمی سے جمیں، اسلام نے جو عبادات ہم پر لازم کئے ہیں اس کی حکمتوں، مصلحتوں اور اس کے مفاہیم و مقاصد پر غور کریں اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ ہم اسے سمجھ کر اور اس کے مقاصد سے آگہی حاصل کرکے اسے اپنی زندگی میں برتیںاور دوسروں تک اس دین کو بصیرت و علم کے ساتھ پہنچائیں، دوسروں کے سامنے اسلام کی حقیقت ، اس کی سچائی، اس کی رواداری، اس کی نکھری تعلیمات و انسانیت نوازی کو واضح کر سکیں اور ہم دوسروں کے سامنے ان تمام جھوٹے پروپیگنڈوں اور کھوٹ و ملاوٹوں کو واضح کر کے اس کا ازالہ کر سکیں جسے دوسروں نے ہمارے خلاف استعمال کیا، اور ہمیں بدنام کر نے کے لئے اس کا سہارا لیا ہے اور جس کے ذریعہ آج ساری دنیا کی لابی اور ان کے قبضہ میں اسیر ذرائع ابلاغ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے اور خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ہم اپنی اصلاح کرنے اور اپنے دین پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے کے بعد ہی اس قابل ہوسکتے ہیں کہ ہم اپنے عقیدے اور دین و مذہب کا دفاع کر سکیں اور بتا سکیں کہ ہمارا دین وہی ہے جس پر ہم عمل پیرا ہیں اور ہمارا عقیدہ وہی ہے جسے دنیا ہمارے اندر دیکھ رہی ہے۔
 
ہمیں کسی کا جواب دینے، کسی پروپیگنڈے کی تردید کرنے، اور کسی الزام تراشی کی صفائی دینے میں اپنی زبان و قلم کو غلط طریقہ پر جارحانہ انداز میں استعمال نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمارے اندر نرمی، سمجھ بوجھ، مفاہمت اور الفت و محبت کی بو آنی چاہئے ، نفرت و کراہت بغض و عناد ، تشدد و سختی کی نہیں، ہمیں ہر ایسے طریقے و اسلوب سے اجتناب کرنا چاہئے جس سے دوسروں کا دل چھلنی اور ان کے جذبات مجروح ہوتے ہوں، ہمارا اسلوب ناصحانہ ہونا چاہئے جس میں بھائی چارگی وخیر خواہی جھلکتی و ٹپکتی ہو۔
 
 
 
 
 

شیئر: