Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں اشتہارات میں مبالغہ آرائی، ’قوانین موجود پر عمل درآمد نہیں ہوتا‘

عابد قاضی کے مطابق الیکٹرانک میڈیا پر نشر کیے جانے والے اشتہارات پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن سے منظور شدہ ہوتے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
وقت گزرنے کے ساتھ دنیا میں مارکیٹنگ کے ذرائع تبدیل ہوتے گئے جن میں سے ایک مختلف پراڈکٹس کی جانب سے خود کو سب سے بہتر ثابت کرنے کی کوششوں میں مبینہ مبالغہ آرائیاں ہیں جن پر اب سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
چند دن پہلے ہی وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے ایک ٹوہٹ کرتے ہوئے کہا کہ اشتہارات کے حوالے سے پالیسی بنانا ضروری ہے۔ 
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ '‏پاکستان میں صابن، شیمپو، ڈٹرجنٹ، ہینڈ واش، ٹوائلٹ کلینر کے 80 فیصد اشتہارات مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ دعوے دیکھیں توکوئی صابن یا ہینڈ واش کورونا کو مارتا ہے تو کسی شیمپو سے بال گرنا بند ہو جاتے ہیں تو کوئی صابن سب سے لمبے عرصے تک جراثیم سے دور رکھتا ہے۔'
انہوں نے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان میں اشتہارات بنانے سے متعلق کوئی قانون موجود ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس پر عملدرآمد کس حد تک ہو رہا ہے؟

اشتہارات سے متعلق قوانین موجود لیکن عملدرآمد نہیں ہوتا

پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے منسلک ایک نجی کمپنی چلانے والے عابد قاضی بتاتے ہیں کہ پاکستان میں پراڈکٹس کی تشہیر کے لیے قوانین موجود ہیں لیکن ان قوانین پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے عابد قاضی نے بتایا کہ 'کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کا اشتہارات سے متعلق واضح قانون موجود ہے۔'

عابد قاضی نے بتایا کہ کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کا اشتہارات سے متعلق واضح قانون موجود ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ 'اشتہارات بنانے کے حوالے سے قوائد و ضوابط اور قوانین موجود ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا کیونکہ کوئی ایسا نگران ادارہ موجود ہی نہیں جو کمپٹیشن کمیشن کے قوانین پر عمل درآمد کروائے۔'
عابد قاضی کے مطابق ’الیکٹرانک میڈیا پر نشر کیے جانے والے اشتہارات پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن سے منظور شدہ ہوتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی سکروٹنی برائے نام ہی کی جاتی ہے، اس کے علاوہ اداروں کی اپنی ایڈیٹوریل پالیسی ہوتی ہے اور اس کے مطابق وہ ایسے اشتہارات نشر نہیں کرتے جو ان کی پالیسی کے خلاف ہوں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔' 
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں میڈیا انڈسٹری کے معاشی حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے اب چند ادارے ہی ایسے رہ گئے ہیں جو اپنی پالیسی کو دیکھتے ہوئے اشتہارات لیتے ہیں، اکثریتی ادارے اشتہارات اور اپنی پالیسی کو علیحدہ علیحدہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پیمرا میں بھی کچھ اشتہارات کے حوالے سے شکایات ہوتی ہیں لیکن اس کا تعلق مبالغہ آرائی سے نہیں بلکہ غیر اخلاقی مواد اور دیگر معاشرتی اصولوں کے حوالے سے ہوتے ہیں۔'

 95 فیصد اشتہارات میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے

گذشتہ دو دہائیوں سے ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے منسلک ساجد امتیاز کے مطابق اشتہارات بناتے ہوئے اب بات مبالغہ آرائی سے آگے نکل کر خیالی دنیا میں پہنچ چکی ہے۔ 
ساجد امتیاز نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ  'کلائنٹ کی مانگ کے مطابق ایسے اشتہارات بنائے جاتے ہیں، پاکستان کا نمبر 1، 99.9 فیصد جیسے الفاظ استعمال کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اور مارکیٹ میں اپنے آپ کو دوسروں سے منفرد رکھنے کے لیے ایسے اشتہارات بنائے جاتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'کمپٹیشن کمیشن کا اشتہارات سے متعلق قانون تو موجود ہے لیکن اشتہارات بناتے وقت اس قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے اشتہار کے نیچے چھوٹا چھوٹا 'قوائد و ضوابط لاگو ہوں گے' لکھا ہوتا ہے جس سے کمپنی کے اوپر کوئی بات نہیں آتی۔'

سعد خان کہتے ہیں کہ صارفین کی جانب سے شکایات کمپٹیشن کمیشن کے پاس آتی رہتی ہیں لیکن اشتہارات میں مبالغہ آرائی کا معاملہ مختلف ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ان کے خیال میں کمپٹیش کمیشن آف پاکستان کو اس حوالے سے آگاہی مہم بھی چلانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں میں بھی شعور آئے اور کمپنیاں اس قسم کے اشتہارات بنانے سے گریز کریں۔ 
ساجد امتیاز کے مطابق 'ترقیاتی یافتہ ممالک میں پراڈکٹس کی تشہیر باضابطہ اصولوں پر کی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں ایسے اشتہارات بنائے جاتے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا، اشتہاروں میں ایسے ایسے سٹنٹس دکھائے جاتے ہیں جو مبالغہ آرائی نہیں بالکل خیالی دنیا کی باتیں ہیں جو کہ ممکن ہی نہیں ہوتی۔'
ان کے خیال میں 95 فیصد اشتہارات میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے اور دیگر جو عوامی آگاہی مہم یا کوئی پبلک نوٹس سے متعلق اشتہارات ہوں وہی صرف حقائق پر مبنی ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایڈورٹائزنگ کا شعبہ زوال کا شکار ہے۔

کیا ایسے اشتہارات کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے؟ 

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے صارف کورٹ کے ماہر سعد خان کہتے ہیں کہ صارفین کی جانب سے شکایات کمپٹیشن کمیشن کے پاس آتی رہتی ہیں لیکن عوامی نوعیت کی شکایات اور اشتہارات میں مبالغہ آرائی کا معاملہ مختلف ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ مختلف کمپنیز جب ایک جیسی پراڈکٹس کی تشہیر کرتی ہیں تو ایک دوسرے کے خلاف ایسی شکایات لے کر آتی ہیں اور بہت سے کیسز میں کمپٹیشن کمیشن نے جرمانے بھی عائد کیے ہیں۔ 
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'ایک کمپنی کی جانب سے دعوی کیا گیا تھا کہ ان کی پراڈکٹ دوسری کمپنی کی فنائل سے زیادہ کارآمد ہے جس پر دوسری کمپنی نے معاملہ کمیشن میں اٹھایا، جس پر کمپنی اپنا دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام ہوئی اور انہیں نہ صرف جرمانہ دینا پڑا بلکہ اشتہار سے الفاظ بھی نکالنے پڑے تھے۔'

شیئر: