Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں چار سال بعد انٹرنیٹ سروس بحال، ’اب گھنٹوں سفر نہیں کرنا ہوگا‘

آن لائن کلاسز میں مشکلات کی وجہ سے بلوچستان کے طلبہ نے کئی احتجاج کیے۔ (فوٹو: بلوچستان سٹوڈنٹ الائنس )
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے پانچ اضلاع میں چار سالوں سے بند موبائل انٹرنیٹ سروسز بحال کردی گئی ہیں۔
یہ سروسز سکیورٹی خدشات کے پیش نظر بند کی گئی تھیں جس کی وجہ سے عام صارفین کو مواصلاتی رابطوں اورضروری خدمات کے حصول خاص کر طلبہ کو آن لائن کلاسز لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
انٹرنیٹ سروسز بحال ہونے پر متاثرہ اضلاع کے صارفین نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔
اس سے پہلے پشین، قلعہ عبداللہ اور مستونگ کے اضلاع میں بھی کئی مہینوں تک انٹرنیٹ سروس معطل  تھی جو بعد ازاں بحال کر دی گئی مگر بلوچستان کے ضلع کیچ، پنجگور،آواران، قلات اور واشک میں موبائل انٹرنیٹ سروس فروری 2017 سے بند تھی۔
باقی بلوچستان کی نسبت ان علاقوں میں امن وامان کی بحالی حکومت اور سکیورٹی اداروں کے لیے چیلنج رہا ہے۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکشن میں یونیورسل سروس کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر حارث محمود چوہدری نے اردو نیوز کوبتایا کہ بلوچستان میں انٹرنیٹ سروسز سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بند کی گئی تھیں۔
’ان علاقوں میں دہشتگرد انٹرنیٹ سروسز کے ذریعے آپس میں رابطے وغیرہ کرتے تھے لیکن اب بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے تو متعلقہ اداروں کو کہہ دیا گیا ہے کہ وہ دہشتگردوں کے ایک دوسرے سے مواصلاتی رابطے روکنے کے لیے کوئی اور طریقہ ڈھونڈیں۔‘
کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں انٹرنیٹ سروس کی بندش سے متعلق کچھ فیصلے کیے گئے اب حالات بہتر ہوئے تو ہم نے وفاقی حکومت سے درخواست کرکے نیٹ سروسز بحال کرا دی۔‘

انٹرنیٹ کی دستیابی پر طلبا نے گروپ سٹڈیز سے بھی فائدہ اٹھایا۔ (فوٹو: ٹوئٹر صبیحہ بلوچ)

پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کے ترجمان خرم علی مہران نے اردو نیوز کو بتایا کہ متعلقہ فورمز کی جانب سے سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد بلوچستان کے اضلاع کیچ (بشمول تربت شہر)، آواران، پنجگور، واشک اور قلات اور خیبر پشتونخوا کے ضلع خیبر میں انٹرنیٹ سروسز بحال کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا۔
’پی ٹی اے نے ٹیلی کام آپریٹروں کوان اضلاع کے ساتھ ساتھ آر سی ڈی شاہراہ، خضدار بسیمہ این 30  شاہراہ اور آواران بیلہ روڈ اور اس سے ملحقہ قصبوں میں انٹرنیٹ خدمات کی بحالی کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ موبائل فون آپریٹروں کو جہاں ممکن ہو اپنے موجودہ انفراسٹرکچر یعنی ٹو جی سائٹس کی تھری جی اور فور جی اپ گریڈ یشن اور نیٹ ورک کی توسیع کا جائزہ لینے کو بھی کہا جائے گا تاکہ ان علاقوں کے رہائشیوں کو بہتر آواز اور ڈیٹا خدمات فراہم کی جا سکیں۔
پی ٹی اے ترجمان کے مطابق ڈیٹا خدمات کی بحالی سے شہریوں کو تعلیم، صحت، تجارت اور کمیونیکیشن سے متعلقہ ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔
دیگر علاقوں میں سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد مرحلہ وار انٹرنیٹ سروسز بحال کی جائیں گی۔

وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت سے درخواست کرکے نیٹ سروسز بحال کرائی ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)

انٹرنیٹ کے حصول کے لیے 600 کلومیٹر کا سفر اور ماہانہ 25 ہزار کے اضافی اخراجات

بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے جھاؤ کے رہائشی محمد اختر بلوچ بلوچستان یونیورسٹی سے زولوجی میں ایم فل کررہے ہیں۔ اپنے آبائی علاقے جھاؤ میں تھری اور فور جی سروس نہ ہونے کی وجہ سے انہیں آن لائن کلاسز حاصل کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔
محمد اختر کے مطابق ’جب کورونا کے دوران تمام تعلیمی ادارے بند ہوئے تو یونیورسٹی کے ہاسٹل خالی کرا دیے گئے جس کی وجہ سے ہمیں گھر جانا پڑا۔ چار مہینے تک وہاں رہا۔ انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے میں آن لائن کلاسز نہیں لے سکتا تھا جس کی وجہ سے میرا پورا سمسٹر ضائع ہوگیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صرف ہائی سپیڈ انٹرنیٹ کی خاطر مجھے مجبور ہوکر گھر سے 600 کلومیٹر دور کوئٹہ جانا پڑا جہاں میں نے دوست کے ساتھ مل کر ایک کمرہ کرایے پر لیا۔ مجھے پچیس ہزار روپے تک ماہانہ اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آواران پاکستان کا واحد ضلع ہے جسے دوسرے ضلع سے ملانے کے لیے کوئی پکی سڑک نہیں۔
’ہمیں اپنے گاؤں سے قریبی ضلع لسبیلہ کی پکی سڑک تک پہنچنے کے لیے 92 کلومیٹرکا سفر پانچ گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے۔ اگر انٹرنیٹ کی سروس ہوتی تو میں گھر میں بیٹھ کر آرام سے اپنی کلاسز لے لیتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ امید ہے اب انہیں اپنی پڑھائی جاری رکھنے اور انٹرنیٹ کی سہولت کے لیے 600 کلومیٹر کا سفر نہیں کرنا پڑے گا۔

انٹرنیٹ کی بندش سے متعلق طلبہ نے احتجاج بھی کیے۔ (فوٹو: ٹوئٹر بہد بلوچ)

انٹرنیٹ کی بندش سے ہزاروں طلبہ کا پورا سال ضائع ہو گیا

تربت یونیورسٹی کیچ، پنجگور اور گوادر اضلاع پر مشتمل مکران ڈویژن کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ یہاں تین ہزار طلبہ پڑھتے ہیں۔
تربت یونیورسٹی کے پروٹول آفیسر میر باہد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یونیورسٹی کے 65 فیصد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے جہاں انٹرنیٹ کی کوئی سہولت نہیں۔ باقی 35 فیصد طلبہ تربت اور دیگر شہری علاقوں میں رہتے ہیں مگر ان میں سے بھی بیشتر کو تھری جی اور فور جی سروس معطل ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ تک رسائی نہیں تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ چار سالوں کے دوران انٹرنیٹ کا واحد ذریعہ پی ٹی سی ایل براڈ بینڈ تھا مگر اس تک بھی بیشتر طلبہ کو رسائی نہیں اس لیے ہماری یونیورسٹی نے لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن کلاسز نہ لینے کا فیصلہ کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تربت یونیورسٹی گزشتہ سال مارچ سے اب تک بند رہی ہے۔ درمیان میں صرف ایک دو مہینے یونیورسٹی کھلی رہیں۔ اس دوران کوئی آن لائن کلاسز نہیں ہوئیں اس طرح انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کا پورا سال ضائع ہوا۔
قلات میں بھی گزشتہ تقریباً ساڑھے چار سالوں سے تھری جی اور فور جی سروس بند رہی۔
قلات کے صحافی عبداللہ لہڑی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ماہانہ تقریباً تین ہزار روپے پی ٹی سی ایل کے انٹرنیٹ پر خرچ کرنے کے باوجود مطلوبہ سپیڈ نہیں ملتی تھی جس کی وجہ سے خبروں کی ترسیل میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر متاثرہ اضلاع کے صارفین نے انٹرنیٹ کی بحالی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مبارکباد بھی دی۔

دوردراز علاقوں کے طلبا نے سگنلز کی موجودگی والی جگہوں پر پڑھائی جاری رکھی۔ (فوٹو: ٹوئٹر حفیظ بلوچ)

بلوچستان میں 80 فیصد آبادی کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت کی فراہمی کے منصوبے

یونیورسل سروس کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر حارث محمود چوہدری نے اردو نیوز کو بتایا کہ آئندہ تین سالوں میں بلوچستان کی 60 سے 80 فیصد آبادی کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے درجنوں منصوبوں پر کام جاری ہے۔
’بلوچستان کی دو ہزار سے زائد موضع جات اور 20 لاکھ کی آبادی کو یونیورسل سروس فنڈ کے ذریعے ہائی سپیڈ تھری جی فور جی انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کی فراہمی کے لیے منصوبوں پر نو ارب روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔’
انہوں نے بتایا کہ ’اس کے علاوہ بلوچستان میں1780 کلومیٹر شاہراہوں پر موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کی فراہمی آئندہ دو سے تین سالوں میں ممکن ہوجائے گی۔‘
حارث محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ تربت میں چھ سے سات لاکھ کی آبادی کو تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ سروس دینے کے لیے یوفون کو دو ارب روپے کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے۔
’اسی طرح چاغی اور نوشکی میں چھ لاکھ صارفین کو انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کی خدمات فراہم کرنے کے لیے ٹیلی نار کمپنی کو ایک ارب روپے کا منصوبہ دیا گیا ہے۔‘
انہو ں نے مزید بتایا کہ مستونگ میں بھی مستونگ میں اس طرز کے منصوبے پر پچاس کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔

شیئر: