Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوشل میڈیا ویڈیوز میں خواتین کو ہراساں کرنے والا یوٹیوبر گرفتار

پاکستان میں سوشل میڈیا پر شہرت حاصل کرنے کے لیے نت نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں جن میں حالیہ دنوں خواتین کو پرینک کے نام پر ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آنے کے بعد ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 
جمعرات کو پنجاب پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق خواتین کو پرینک کے نام پر ہراساں کرنے والے خان علی نامی ملزم کے لیے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس نے بیان میں ملزم کی تصویر بھی شیئر کرتے ہوئے کہا کہ مزید قانونی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔
پولیس کی جانب سے ٹوئٹر پر بیان کے بعد صارفین کی جانب سے اس کارروائی کو کافی پذیرائی مل رہی ہے اور اس کے ساتھ پرینک کے نام پر ہراساں کرنے کے دیگر واقعات کی جانب توجہ دلائی جاری ہے۔ 

وطن سے پیار کرپشن سے انکار نامی اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی گئی ہے کہ 'ایک بہترین ایکشن۔ ایسے لوگوں کو سبق سکھایا جانا چاہیے۔ صرف پکڑ کر حوالات میں بند کرنا کافی نہیں۔‘

ڈاکٹر ارشاد فاروق گرفتاری پر ویلڈن کہتے ہوئے کہا کہ 'یہ عجیب بدتمیزی کا اودھم مچایا جا رہا۔ بزرگ شہریوں پہ پانی پھینکنے والوں کو بھی اریسٹ کریں پلیز۔‘

ملزم خان علی کے یوٹیوب چینل پر تین لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں۔ ملزم کو سٹی پولیس گجرانوالہ نے ٹوئٹر پر 'پرینک' ویڈیو وائرل ہونے کے بعد گرفتار کیا۔ اس ویڈیو پر 09 لاکھ سے زیادہ ویوز ہیں۔
سوشل میڈیا پرحالیہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب متعدد صارفین نے یوٹیوبر کی ویڈیو کے کلپس اور سکرین شاٹس شیئر کر کے ان پر اعتراض کیا۔
ثاقب راجہ نامی ٹویپ نے لکھا ’خوفناک، کوئی اس شخص کو روک نہیں رہا۔‘

صدف علوی نامی ہینڈل نے ویڈیو کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ شخص پاکستانی خواتین کو سڑکوں اور عوامی مقامات پر دوپٹہ نہ پہننے پر ہراساں کررہا ہے۔ وہ کئی مہینوں سے یہ کام کر رہا ہے اور پھر وہ ان کی ویڈیوز ان کے علم میں لائے بغیر یا رضامندی کے بغیر انٹرنیٹ پر پوسٹ کردیتا ہے۔‘

اظہر مشوانی نامی صارف نے یوٹیوبر کی گرفتاری کے بعد کی ویڈیو شیئر کی جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے فالورز بڑھانے کے لیے یہ ویڈیو بنائی تھی، جس پر وہ معافی مانگتے ہیں اور آئندہ ایسی کوئی ویڈیو نہیں بنائیں گے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر غلط معلومات، افواہوں اور دوسروں کو مذاق کے نام پر ہراساں کرنے کے واقعات پہلے بھی متعدد بار سامنے آ چکے ہیں، جس کے بعد صارفین حکام  سے سخت کارروائی کرنے کے مطالبات بھی کر چکےہیں۔

شیئر: