Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران اور دنیا کے لئے ابراہیم رئیسی کی انتخابی جیت کا مطلب کیا؟

ابراہیم رئیسی نے اتنے ہی ووٹ لئے جتنے2017 میں ہارے ہوئے امیدوار کی حیثیت سے حاصل کئے۔(فوٹو عرب نیوز)
ایران میں سیاسی نظام کی بنیادی حدود یا فریم ورک پر براہ راست تنقیدممنوع ہے۔دوروز قبل ہونے والے صدارتی انتخابات میں ابراہیم رئیس کی فتح نے ایرانیوں کی اس طرح کے معاملات میں پسند و ناپسند کی کمی کو پہلے سے کہیں زیادہ اجاگر کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اگرچہ بہت سارے ممالک میں رائے دہندگان کے لئے انتخابات میں معنی خیز چوائس نہ ہونا غیر معمولی بات نہیں لیکن ایرانی معاملہ اس رجحان کو نئی بلندیوں پر لے جاتا ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق گارڈین کونسل90 فیصد سے زیادہ درخواست دہندگان کو مسترد کرتی ہے جو سیاسی عہدے کے لئے انتخاب لڑنے کے لئے درخواست دینے کی پریشانی سے دوچارہوتے ہیں۔
اس کونسل نے امسال نہ صرف سبکدوش ہونے والے صدر حسن روحانی کے ساتھ اتحاد کرنے والے معروف اصلاح پسند امیدواروں  بلکہ مقبولیت پسند سخت گیروں کی امیدواری کوبھی مسترد کردیا۔
جن امیدواروں کوانتخاب میں حصہ لینے سے منع کردیا گیا ان میں موجودہ نائب صدر اسحاق جہانگیری ، پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی اوردائیں بازو کے سابق صدر محمود احمدی نژاد شامل ہیں۔
یہ ایران کے سابق سیاسی رہنما ہیں جن کی اسلامی جمہوریہ کے بنیادی اصولوں کی حمایت کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے لیکن پھر بھی گارڈین کونسل نے انہیں بہت زیادہ خطرہ سمجھا اور ان کی امیدواری کو نااہل کردیا ۔
ان حالات کے باعث رائے دہندگان کا ٹرن آوٹ گزشتہ دہائیوں کے مقابلے میں سب سے کم رہا۔
ایسے میں ایرانی صدارتی انتخابات کی قانونی حیثیت کا فیصلہ کیسے کیاجائے ؟ اس حوالے سے اٹلانٹک کونسل میں فیوچر آف ایران انیشی ایٹو کی ڈائریکٹر باربرا سلیون نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ ”جواز یا قانونی حیثیت “کی تعریف کس طرح کرتے ہیں۔
گارڈین کونسل نے ہمیشہ ایسے امیدواروں کی جانچ پڑتال کی ہے جو ناکافی طور پر سسٹم کے ساتھ وفادار نظر آتے ہیں ، حالانکہ اس سے پہلے" وفادار "کی تعریف اتنی سمٹی ہوئی نہیں تھی جتنی اس انتخابات کے لئے لگتی ہے۔

ایرانی  مصنف آرش عزیزی نے عرب نیوز کو بتایا کہ  ابراہیم رئیسی نے 2021 میں اتنے ہی ووٹ لئے تھے جتنے 2017 میں انہوں نے ہارے ہوئے امیدوار کی حیثیت سے حاصل کئے تھے لیکن اس بار انہوں نے کامیابی حاصل کی کیونکہ لوگوں کی اکثریت نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
اگر ہم سرکاری اعداد و شمار پر یقین کر لیں تو بھی یہ جمہوریہ اسلامیہ میں ووٹنگ کی تاریخ کا سب سے کم ٹرن آوٹ ہے۔ پہلی بار کسی اکثریت نے صدارتی انتخاب میں ووٹ نہیں دیا ۔
باربرا سلیون نے کہا  ہےکہ ایرانی عوام 25برسوں سے پرامن ارتقائی تبدیلی کے حصول کی امید میں صدارتی انتخابات میں بڑی تعداد میں شریک ہوئے ۔ایک ایسے نظام میں جہاں رائے دہندگی کو حب الوطنی کا فریضہ سمجھا جاتا ہے ، ووٹ نہ دینابھی احتجاج کی ایک قسم ہے۔
 بحران میں گھری معیشت اور حالیہ برسوں میں بڑھتے ہوئے  مظاہروں نے حکومت کو جھنجھوڑا ہے۔ اس طرح کے حالات میں حقیقی قیادت امسال کے انتخابات میں ایرانیوں کو چوائس کی جھلک کی اجازت دینے سے بھی خائف ہے ۔ صدارت کے لئے رئیسی کی تقرری شاید ایرانی عوام کے لئے ایک پیغام کی نمائندگی کرتی ہے۔

ایران آج بھی چین کے بعدان ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں ہر سال سب سے زیادہ پھانسیاں دی جاتی ہیں۔
رئیسی ایرانی صدارت کے منصب پر وہ پہلے عہدیدار ہیں جن پرماضی میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں پہلے ہی امریکی اور یورپی پابندیاں عائد ہیں۔
علاوہ ازیں خامنہ ای اور علما اسٹیبلشمنٹ نے طویل عرصے سے تمام سیاسی مسابقت ختم کرنے کا شعوری فیصلہ کیا ہے۔ خامنہ ای کے حامی قدامت پسند اب عدلیہ، پارلیمنٹ اور ایوان صدر میں موجود  ہیں۔
اٹلانٹک کونسل کی  باربرا نے کہا  ہےکہ صدارتی انتخابات کے جواز کے مقابلے میں اب ایک زیادہ مناسب سوال یہ ہے کہ کیا  رئیسی انتظامیہ عام ایرانیوں کی زندگی  بہتر بنا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر تہران 2015 کے جوہری معاہدے کی تعمیل میں واپس آیا اور دوبارہ پابندیاں ختم کردی گئیں تو ایرانیوں کو قدرے بہتر معیشت دیکھنے کی امید ہے۔

آرش عزیزی کا خیال ہے کہ رئیسی احتیاط سے چلیں گے کیونکہ ان کا اصل ہدف اس دن کی تیاری کرنا ہے جب خامنہ ای کے بعد بحران پیدا ہوسکتے ہیں اور ان کے سپریم لیڈر بننے کے امکانات بھی ہو سکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ روحانی کے چیف آف سٹاف محمود واعظی نے قیاس آرائی کی ہے کہ رئیسی کے دور میں لوگوں کی زندگی میں بہتری آسکتی ہے۔
ممکن ہے کہ رئیسی کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی مغرب کے ساتھ ایسا معاہدہ ہوجائے جس سے معیشت پر دباو میں کچھ کمی آ جائے۔
عزیزی نے کہا  ہے کہ صدارت میں تبدیلی، عرب دنیا میں ایران کی پالیسی میں فوری تبدیلی نہیں لائے گی لیکن اسلامی انقلابی گارڈ کور( آئی آر جی سی )کو ریاستی ڈھانچے تک غیر محدود رسائی مل جائے گی اور وہ علاقائی مہم جوئی میں آزادہوگی۔
سلیون نے کہا  ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ رئیسی معیشت کے استحکام پر توجہ دیں گے اور پڑوسیوں کے ساتھ تناو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔

دریں اثنا  امریکی حکومت میں بائیڈن انتظامیہ جوہری معاہدے کو دوبارہ شروع کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔
عزیزی کے خیال میں رئیسی کے اگست میں اقتدار سنبھالنے سے قبل حکومت جوہری معاہدے میں واشنگٹن کو دوبارہ شامل کرنے کی کوشش کرے گی۔
آئی آر جی سی کے کچھ عناصر انہیں خطے میں مزید کارروائیوں کی اجازت دینے اور خلیجی ریاستوں کی جانب سے مفاہمت اور مذاکرات کی پیش کشوں کو مسترد کرنے پر دباوڈالیں گے۔
ابراہیم رئیسی اس دباو کو کس حد تک قبول کریں گے، یہ ایک کھلا سوال ہے۔
 
فوٹوز بشکریہ عرب نیوز

شیئر: