Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین کے لباس پر وزیرِاعظم کا بیان، صبح سے شام تک زیرِبحث

عمران خان نے انٹرویو میں کہا ’اگر عورت چھوٹے کپڑے پہنے گی تو اُس کے اثرات مردوں پر ہوں گے‘ (اے ایف پی)
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا صحافی جوناتھن سوان کو چینل ایچ بی او پر انٹرویو کو دیے گئے میں خواتین کے لباس سے متعلق بیان سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ 
انٹرویو میں بڑھتے ہوئے تشدد اور زیادتی کے واقعات کے حوالے سے سوال پوچھا گیا۔ صحافی نے پوچھا ’عورت جیسے کپڑے پہنتی ہے کیا اس کے کوئی اثرات ہوتے ہیں؟‘
اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ’اگر عورت چھوٹے کپڑے پہنے گی تو اُس کے اثرات مردوں پر ہوں گے۔ کیونکہ وہ روبوٹس نہیں ہیں۔‘ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ ’یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔‘
وزیر اعظم کی جانب سے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر تبصروں کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے جس میں صارفین اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور بیشتر صارفین اس بیان پر عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ 
نا صرف سوشل میڈیا بلکہ پاکستانی مین سٹریم میڈیا میں بھی مختلف ٹاک شوز میں اس موضوع پر بات چیت کی جا رہی ہے۔ 
صحافی اور اینکر غریدہ فاروقی نے عمران خان کے جواب پر تبصرہ کرتے ہو ئے لکھا ’صرف یہ حالیہ بیان ہی نہیں تشویشناک بات یہ بھی ہےکہ وزیر اعظم خان ماضی قریب میں بھی دیےگئےایسے ہی بیانات اور اُس کےنتیجے میں ہونے والے پُرزور عوامی احتجاج کے باوجود اب بھی ویسا ہی سمجھتےہیں کہ عورت کا لباس مردکو لُبھانےکا باعث بنتا ہے۔ سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘

صحافی انصار عباسی لکھتے ہیں کہ ’عمران خان نے پردے اور فحاشی کے متعلق بات کی تو لبرلز کا ایک بیمار طبقہ اُن کے ماضی کو کھنگال کر اُن کی پرانی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کر رہا ہے۔ اگر خان صاحب کل غلط تھے اور آج پردے کے حق اور فحاشی کے خلاف بات کر رہے ہیں تو اُن کی تعریف کی جانی چاہیے۔ اللہ سب کو ہدایت دے۔‘

 

لباس کے حوالے سے وزیر اعظم کے بیان ان کی تصویر کے ساتھ کو شیئر کرتے ہوئے شمائلہ غیاث نے کچھ سوال اٹھائے، انہوں نے لکھا کہ’مدرسے میں موجود چھوٹے بچوں نے کیا پہنا تھا؟ زینب اور بے شمار چھوٹی لڑکیوں نے کیا پہنا تھا؟ خواتین جو عبایہ میں ہوں عصمت دری کا شکار ہوتی ہیں؟

اسی بحث میں مہر تارڑ  نامی صارف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’وزیر اعظم خان کو پاکستان میں جنسی استحصال اور عصمت دری کے واقعات میں اضافے کے لیے اپنی ذاتی وضاحت دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں کہ لباس کا پاکستان کے عصمت دری کے واقعات سے کوئی تعلق ہے۔ میں نے سوچا کہ پچھلی بار جو ہوا اس کے بعد انہوں نے کچھ سیکھ لیا ہے۔‘

صحافی اجمل جامی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ مشورے بھی  دے ڈالے ’وزیر اعظم پاکستان کا دنیا بھر میں نام ہے۔ شہرت ہے، مقام ہے۔ ان کی کمیونی کیشن ٹیم میں واقعتاً پڑھے لکھے اور موثر افراد کی ضرورت ہے۔ مقامی سطح پر ناقدین کے منہ بند کرنا حکومت میں رہ کر آسان ہوتا ہے لیکن بین الاقوامی پلیٹ فارمز کے لیے بیان بازی نہیں بلکہ مربوط پلاننگ درکار ہوا کرتی ہے۔‘

شیئر: