Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غرب اردن: اسرائیلی حکومت اور آبادکاروں میں بستی خالی کروانے کا معاہدہ

گیوت ایویتار بستی میں پچاس سے زائد یہودی خاندان آباد ہیں۔ فوٹو روئٹرز
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تنازعے کا باعث بننے والی بستی کو یہودی آبادکاروں سے خالی کروانے کا معاہدہ طے پا گیا ہے، جو نو منتخب اسرائیلی وزیراعظم کے لیے ایک نیا سیاسی چیلنچ بن سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہودی آبادکاروں نے گیوت ایویتار بستی چھوڑنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے جس پر فلسطینی بھی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت مقبوضہ غرب اردن میں واقع گیوت ایویتار بستی کو یہودی آبادکار خالی کر دیں گے۔
تاہم بستی میں تعمیر کی گئی نئی عمارتوں کی حفاظت کے لیے فوج تعینات کرنے کا خدشہ ہے۔ اسرائیل کا یہ اقدام فلسطینوں کی برہمی کا باعث بن سکتا ہے جنہوں نے بستی کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
فلسطینی شہر نابلس کے پاس ایک پہاڑی پر قائم یہ یہودی بستی اسرائیلی حکومت کے اجازت نامے کے بغیر مئی میں تعمیر کی گئی تھی جہاں اب پچاس سے زیادہ خاندان آباد ہیں۔
اسرائیلی فوج نے بستی خالی کروانے کا حکم جاری کر دیا ہے جو نو منتخب وزیراعظم کے لیے ایک نیا چیلنج ہے جس پر انہیں اپنے ووٹرز سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وزیراعظم نفتالی بینیٹ آبادکاری مہم کی رہنمائی بھی کرتے رہے ہیں جبکہ آبادکاری کی حامی جماعت کے سربراہ ہیں۔
تاہم نفتالی بینیٹ کی مختلف جماعتوں کے اتحاد سے بننے والی حکومت بائیں بازو اور اسلامی عرب جماعتوں کی حمایت سے ہی قائم رہ سکتی ہے۔
اسرائیلی وزارت دفاع کے ایک عہدیدار کے مطابقگیوت ایویتار کے خاندانوں نے رواں ہفتے کے آخر تک بستی رضاکارانہ طور پر چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت یہودی آباد کار بستی چھوڑ دیں گے۔ فوٹو روئٹرز

عہدیدار نے روئٹرز کو مزید بتایا کہ اسرائیلی فوج یہاں موجود رہے گی جبکہ لینڈ سروے بھی کروایا جا رہا ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ حکومت کی حمایت سے بستی قائم کی جا سکتی ہے۔
آبادکاروں کے رہنما یوسی دگان نے کہا ہے کہ معاہدے کے تحت تمام خاندان جمعے کے روز بستی چھوڑ کر چلے جائیں گے، ان کے گھروں کو تالا لگا دیا جائے گا۔ تاہم وزارت دفاع کے عہدیدار نے اس حوالے سے تصدیق نہیں کی۔
بدھ کو فلسطینی گاؤں بیتا کے نائب میئر موسیٰ ہمایل نے کہا کہ بستی کے ختم ہونے اور فلسطینیوں کو زمین واپس ملنے تک مظاہرے جاری رہیں گے۔
اکثر ممالک ان تمام یہودی بستیوں کو غیرقانونی قرار دیتے ہیں جو 1967 کی جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے زبردستی قائم کی تھیں۔
اس بستی کی مخالفت میں ہونے والے مظاہروں کے دوران اسرائیلی فوج پانچ فلسطینی بچوں کو گولی مار کر ہلاک کر چکی ہے۔

شیئر: