Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب: تین کروڑ 70 لاکھ برس قبل معدوم ہو جانے والی وہیل کی باقیات دریافت

وہیل جس علاقے سے دریافت ہوئی وہ بارانی پانی کے بڑے ذخیروں کے لیے مشہور ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)
 سعودی عرب کے جوف ریجن میں تین کروڑ 70 لاکھ برس قبل معدوم ہوجانے والی ایک وہیل کی باقیات دریافت ہوئی ہیں جس نے خطے کے قدیم سمندری ماحول سے جڑے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔
29 جون کو عام کی گئی معلومات میں ایک ایسے قبرستان کا ذکر ہے جس میں وہیل کی ہڈیاں پائی گئی ہیں۔ اس تحقیق میں آٹھ مقامی اور غیر ملکی ماہرین نے حصہ لیا جو ارضیات اور قدیم حیاتیات کے شعبوں سے متعلق ہیں۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق دریافت کا سہرا سعودی جیولوجیکل سروے (ایس جی ایس) کی ٹیم کے سر ہے اور یہ سائنسی تحقیقات میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس نایاب وہیل کی باقیات رتیلے اور پتھریلے پہاڑوں پر مشتمل اس علاقے میں پائی گئیں جس کا تعلق پرائیوبونئین عہد سے ہے۔ اسے ’اپرایوسین ایرا‘ یعنی عہد جدید کے آغاز کا زمانہ بھی کہا جاتا ہے جو کہ لگ بھگ تین کروڑ 70 لاکھ برس قدیم ہے۔
حال ہی میں ہونے والی یہ دریافت سعودی عرب کے شمال مغربی علاقوں کی قدیم سمندری حیات کے بارے میں اہم معلومات کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔
سعودی جیولوجیکل سروے کے تکنیکی مشیر، امریکی ماہر ارضیات ایاد زلموت نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ جانور وہیل کی قدیم ترین قسم سے تعلق رکھتا ہے اور اسے ناپید ہوجانے والی اقسام کے درجے میں رکھا گیا ہے۔‘
دریافت ہونے والی ان باقیات میں ایک بڑی ہڈی ہے جو دم سے لے کر سینے کے اوپری حصے تک محفوظ ہے، اس میں گولائی والی پیشانی اور کندھوں کے کناروں کے علاوہ کھوپڑی اور نچلے جبڑے کی پہچان بھی واضح ہے۔
زلموت نے بتایا کہ ’یہ نئی وہیل ان وہیلوں سے ملتی جلتی ہے جو 1902 میں اور بعد ازاں 1991 میں مصر کے مغربی صحرا سے ملی تھیں لیکن یہ نئے دریافت ہونے والے فوسلز پہلے کی نسبت زیادہ مکمل ہیں جو اس نوع کی وہیل کے بارے میں زیادہ معلومات دے سکتے ہیں۔ یہ وہیل پرانی وہیلز کی نسبت کافی چھوٹی ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈروڈن اٹروکس نامی وہیل کی جسامت کے ایک تہائی کے برابر ہے۔

دریافت ہونے والی وہیل کا وزن 500 کلو گرام سے زائد بتایا گیا ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)

یہ چھوٹی جسامت کی حامل مکمل طورپر پر آبی وہیل ہے جس کی لمبائی لگ بھگ تین میٹر ہے ، اور اس کی دُم نسبتاً طویل ہو سکتی ہے اور اس کے جسم کی حرکت سانپ کے جیسی ہے۔ 
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس وہیل کا وزن 500 سے 600 کلوگرام ہو سکتا ہے۔ امریکی ماہر ارضیات زلموت کے مطابق اس کے وزن کا اندازہ دوسری دریافت ہونے والی وہیلز کی جسامت کی مدد سے لگایا گیا ہے۔ یہ باقیات الرشرشیہ نامی چٹانی علاقے سے دریافت ہوئی ہیں جو اردن کی سرحد کے قریب سعودی عرب کا شمال مغربی علاقہ ہے۔

دریافت ہونے والی ان باقیات میں ایک بڑی ہڈی ہے جو دم سے لے کر سینے کے اوپری حصے تک محفوظ ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر ایس جی ایس)

امریکی ماہر ارضیات زلموت کا کہنا ہے کہ یہ وہیل جس علاقے سے دریافت ہوئی ہے، وہ بارانی پانی کے بڑے ذخیروں کے لیے مشہور ہے۔ ان کے بقول وہیل کی یہ نوع مختلف قسم کے موسمیاتی حالات کے تحت تبدیلیوں کےعمل سے گزرتی رہی اور بالآخر معدومی کا شکار ہو گئی۔
زلموت کے مطابق ’یہ سعودی عرب کی حدود میں دریافت ہونے والی پہلی ایسی ایوسین وہیل ہے جس کی کی کھوپڑی زیادہ تر سلامت ہے۔‘
’ہم سعودی جیولوجیکل سروے کے نئے سی ای او عبداللہ الشمرانی کے بے حد ممنون ہیں کہ انہوں نے سعودی عرب کی قدیم تاریخ کے مطالعے کے لیے سازگار ماحول قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔‘
خیال رہے کہ سعودی جیالوجیکل سروے یا ایس جی ایس حکومتی ادارہ ہے جو قدیم حیاتیات سے متعلق ماہرین کی ٹیم پر مشتمل ہے۔ ایس جی ایس کی قدیم حیاتیات سے متعلق لیبارٹریوں میں استعمال ہونے والے آلات، ٹولز اور مواد روایتی طریقوں کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو بھی استعمال کرتے ہیں۔
اس ادارے نے گزشتہ 15 برسوں میں مقامی اور بین الاقوامی مشیروں اور سائنٹفک سوسائٹیز کی مدد سے متعدد اہم دریافتیں کی ہیں۔

شیئر: