Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچ عسکریت پسندوں سے پھر مذاکرات کا اشارہ، پیش رفت کا امکان؟

حکومت کی جانب سے بلوچستان میں جاری پانچویں شورش کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی یہ پہلی کوشش نہیں ہوگی۔ حالیہ برسوں میں اس سے قبل بھی شورش زدہ صوبے میں علیحدگی کی مسلح تحریک چلانے والوں اورجلا وطن بلوچ رہنماؤں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوششیں ہوچکی ہیں مگر حکومتوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
بلوچستان کے تجزیہ کار مذاکراتی عمل کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ سنجیدہ کوششوں اور اعتماد کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر آنے والی حکومت مذاکرات کےنعرے تو لگاتی ہے مگر جلا وطن رہنماؤں کی وطن واپسی کے لیسے اعتماد کی فضا اور حالات سازگار بنانے کے لیے سنجیدہ اور راست اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

وزیراعظم عمران خان نے کیا کہا؟

پیر کو بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے دورے کے موقع پر عمائدین سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’مرکز نے بھی بلوچستان سے انصاف نہیں کیا اور بلوچستان کے سیاست دانوں نے بھی ان سے انصاف نہیں کیا، میرے خیال میں جو پیسہ آتا تھا وہ بھی ٹھیک سے نہیں لگا۔ اس لیے بلوچستان باقی ملک سے پیچھے رہ گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگوں کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ان کا بھی ملک ہے اور وہ ان کی بنیادی ضروریات اور مشکلات کے بارے میں بھی سوچتا ہے۔اگر ایسا ہوتا تو پھر بلوچستان کے بارے میں شاید ہمیں یہ فکر نہ کرنا پڑتی کہ یہاں کوئی شورش پیدا ہوگی۔
عمران خان نے کہا کہ ’میں ویسے بھی ان (بلوچ عسکریت پسندوں) سے بات کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی کوئی پرانی رنجشیں ہوں یا یہ دوسرے ملکوں کے لیے استعمال ہو رہے ہوں یا انڈیا ان کو انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کرتا ہو لیکن اب تو وہ حالات نہیں۔

تجزیہ کار انور ساجدی کا کہنا ہے کہ ’’پہاڑوں پر موجود بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ کسی فنڈ یا ترقی کا نہیں بلکہ شناخت اور تشخص کا ہے۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے معاشی حالات اتنے بہتر نہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے بلوچستان کو سب سے بڑا پیکیج دیا ہے۔
کوئٹہ کے مقامی اخبار کے مدیر اورسینئیر تجزیہ کار انور ساجدی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے حکومت میں آنے کے بعد پہلی بار بلوچستان میں مزاحمت کاروں سے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وہ بلوچستان اور فاٹا کے مسائل کو بھی مذاکرات سے حل کرنے کی باتیں کرتے تھے مگرانہوں نے فاٹا میں بھی مذاکرات کی کوششیں نہیں کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شاید موجودہ حکومت کو افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال دیکھتے ہوئے اندیشہ ہے کہ بلوچستان میں بھی بے چینی اور شورش میں اضافہ نہ ہو جائے۔ مذاکرات کی نئی کوششیں شروع ہو سکتی ہیں مگر میرا نہیں خیال کہ اس کا کوئی نتیجہ نکلے گا۔‘
انور ساجدی کے مطابق مذاکرات کی کامیابی کے امکانات اس لیے نہیں ہیں کہ پہاڑوں پر موجود مسلح افراد جلا وطن بلوچ رہنماؤں کے اثر میں نہیں ہیں۔
’پہاڑوں پر موجود بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ کسی فنڈ یا ترقی کا نہیں بلکہ شناخت اور تشخص کا ہے جبکہ حکومت اس پر بات نہیں کرتی۔ یہ معاملہ اس وقت اس لیے بھی طے نہیں ہو سکتا کیونکہ دونوں فریق انتہا پر ہیں۔ جب تک اصل مسئلے کو نہیں دیکھا جاتا، یہ محض کوششیں ہوں گی۔‘

عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ ’جلا وطن بلوچ رہنماء مذاکرات کے لیے بالکل سنجیدہ تھے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹرعبدالمالک کے دور میں بھی مذاکرات کی کوششیں ہوئی تھیں مگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ کیا تھا جو ہمارا (طاقت کے استعمال کا ) پلان ہے وہ زیادہ موثر ثابت ہوگا اس لیے انہوں نے یہ کوششیں ترک کر دیں۔
اس حوالے سے بلوچستان کے سینئیر صحافی جلال نورزئی کا کہنا ہے کہ ’یقینی طور پر باہر بیٹھے لوگوں کو ایک مضبوط گارنٹی کی ضرورت ہے۔ مضبوط گارنٹی بلاشبہ پاکستان کی فوج دے سکتی ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے رضا مندی ہوتی تو ڈاکٹر عبدالمالک کسی نتیجے پر پہنچ جاتے۔‘
انہوں نے بتایا کہ خطے میں بالخصوص افغانستان کے اندر بڑی تیزی سے حالات تبدیل ہو رہے ہیں، اس تناظر میں یقیناً اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی حکومت بلوچ عسکریت پسندوں یا دوسرے رہنما جن کے لیے ناراض رہنماؤں کی اصلاح بھی استعمال ہوتی ہے، سے بامعنی بات چیت کا آغاز کریں۔‘
’ان میں سوائے ایک دو کے تمام بیرون ملک مقیم رہنما اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ وہ وطن لوٹ آئیں اور یہاں کے سیاسی عمل میں حصہ لیں لیکن شرط اسٹیبلشمنٹ کی سنجیدگی ہے۔‘

صحافی جلال نورزئی کا کہنا ہے کہ ’افغانستان کے حالات کی وجہ سے اس بات کی ضرورت ہے کہ حکومت ناراض رہنماؤں سے بامعنی بات چیت کا آغاز کریں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں مذاکرات کی کوششیں

بلوچستان میں شورش کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ پہلی شورش کا باقاعدہ آغاز سنہ 1948 میں ریاست قلات کے پاکستان کے الحاق کے ساتھ ہی ہوا۔ صوبے میں پانچویں شورش دو دہائیوں سے چل رہی ہے، اس میں شدت فوجی صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں اگست 2006 میں نواب اکبر بگٹی کی ایک فوجی آپریشن میں ہلاکت کے بعد آئی۔ دو دہائیوں میں اب تک سینکڑوں سکیورٹی اہلکار، عام شہری اور عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔
پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد وجود میں آنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلوچستان کے عوام سے معافی مانگنے کے بعد سنہ 2009 میں صوبے کی محرومیوں کے ازالے کے لئے ’آغاز حقوق بلوچستان پیکیج‘ کا اعلان کیا جس کے تحت نہ صرف ہزاروں نئی نوکریاں اور اربوں روپے کے فنڈز دیے گئے بلکہ سیاسی کارکنوں اور جلا وطن بلوچ رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات بھی واپس لیے گئے۔ حکومتی کوششوں کے باوجود جلاوطن بلوچ قیادت کو وطن واپس آنے پر قائل نہ کیا جا سکا۔
مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں سنہ 2015 میں عبدالمالک بلوچ کی حکومت اور مقامی فوجی قیادت کی تجویز پر ’پرامن بلوچستان مفاہمتی پالیسی‘ کی منظوری دی گئی۔
’پرامن بلوچستان‘ نامی اس منصوبے کے تحت ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا۔ ہتھیار ڈالنے والے کو فی کس پانچ سے 15 لاکھ روپے امداد دینے، بچوں کو مفت تعلیم اور روزگار دینے کا وعدہ کیا گیا۔

بلوچستان کی پانچویں شورش میں شدت 2006 میں نواب اکبر بگٹی کی ایک فوجی آپریشن میں ہلاکت کے بعد آئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس منصوبے کے تحت کوئٹہ، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، سبی، آواران، خضدار، کیچ، پنجگور اور گوادر سمیت بلوچستان کے کئی شہروں میں سینکڑوں عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈالے۔
ان میں سے بیشتر کا تعلق کالعدم مسلح تنظیموں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ری پبلکن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ سے تھا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی عسکریت پسندوں نے بھی اس منصوبے کا فائدہ اٹھایا۔
وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے جلا وطن بلوچ رہنماؤں خان آف قلات سلیمان داؤد، نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی اور نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے حربیار مری سے ملاقاتوں کے لیے یورپ کا دورہ بھی کیا، تاہم ان میں سے کسی کی وطن واپسی ممکن نہ ہو سکی۔
رواں سال فروری میں اردو نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں عبدالمالک بلوچ نے جلا وطن ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کی ناکامی سے متعلق سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ ’جلا وطن بلوچ رہنماء مذاکرات کے لیے بالکل سنجیدہ تھے۔ مذاکرات شروع کرنے کے دو یا تین مہینے بعد ہماری حکومت ختم ہوئی۔ بعد میں آنے والی (ثناء اللہ زہری) حکومت نے اس مسئلے میں دلچسپی لینا چھوڑ دی۔‘
’سول سائیڈ میں نواز شریف اور ہماری صوبائی حکومت کی خواہش تھی کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کی بھی اس زمانے میں تعاون اور خواہش تھی۔ میرے خیال میں میرے جانے کے بعد چیزیں بدل گئیں۔‘
عبدالمالک بلوچ کے اڑھائی سالہ دور کے بعد وزیراعلیٰ بننے والے نواب ثنا اللہ زہری نے بھی بیرون ملک کا دورہ کیا تاہم تجزیہ کاروں کے بقول ثناء اللہ زہری عبدالمالک بلوچ کی طرح جلا وطن بلوچ رہنماؤں کی واپسی کے متمنی نہ تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے سنہ 2009 میں  صوبے کی محرومیوں کے ازالے کے لئے ’آغاز حقوق بلوچستان پیکیج‘ کا اعلان کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جلال نورزئی سمجھتے ہیں کہ ’نہ صرف ثنا اللہ زہری بلکہ ان کی حکومت میں شامل کئی وزرا اور اسٹیبلشمنٹ کے حامی سمجھے جانے والے افراد نے بھی جلا وطن بلوچوں کی واپسی کی مخالفت کی اور ہر ممکن حد تک رکاوٹیں ڈالیں۔‘ شاید یہ لوگ جلا وطن رہنماؤں کی واپسی کو اپنے سیاسی مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
ان کے بقول ’آغاز حقوق بلوچستان پیکیج اورعبدالمالک بلوچ دور کے ’پرامن بلوچستان پیکیج میں پیچیدگیاں تھیں۔ ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں کی تھانوں میں بار بار حاضری، پیسوں کی ادائیگی میں تاخیر اور روزگار کی فراہمی جیسے دیگر وعدوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے مزید پیش رفت نہ ہو سکی۔‘
بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے اور صوبے کے سابق وزیر داخلہ گزین مری واحد جلا وطن بلوچ رہنما تھے جو وطن واپس آئے۔ ستمبر 2017 میں 18 سال کی جلا وطنی ختم کرکے جب وہ کوئٹہ پہنچے تو انہیں ایئرپورٹ پر گرفتار کر لیا گیا۔
گزین مری کہتے ہیں کہ وطن واپسی پر انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا مگر انہوں نے عدالتوں کا سامنا کیا اور خود کو بے گناہ ثابت کیا۔ اس کے بعد جب انتخابات کے ذریعے سیاسی عمل میں شامل ہونے کی کوشش کی تو بھی قدغنیں لگائی گئیں، اس لیے وہ خاموش ہو کر گھر بیٹھ گئے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک موجود جلا وطن رہنما یقیناً کسی سمجھوتے کے تحت واپس آئیں گے مگر دوسری طرف سے وعدوں اور سمجھوتوں کی پاسداری نہیں کی جاتی۔ نواب نوروز سے حکومت وقت کا سلوک بھی اس کی ایک مثال ہے۔ اعتماد کی اسی کمی کی وجہ سے جلا وطن رہنما واپس آنے سے کتراتے ہیں۔

جلال نورزئی کے مطابق ’ ثنا اللہ زہری اور ان کی حکومت میں شامل کئی وزرا نے جلا وطن بلوچوں کی واپسی کی مخالفت کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عمران خان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے گزین مری کا کہنا تھا کہ تین سال گزرنے کے بعد وزیراعظم کا یہ کہنا کہ اب وہ بات چیت کرنے کا سوچ رہے ہیں افسوس ناک ہے۔ تین برسوں میں پہلی بار وہ سوچ رہے ہیں تو بات چیت کا آغاز نہ جانے کب کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بات چیت کی خواہش اگر صرف عمران خان کی اپنی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ بلوچستان سے متعلق فیصلوں کا اختیار رکھنے والی قوتوں کی رضامندی کے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔‘
سینئیر صحافی جلال نورزئی بھی سمجھتے ہیں کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں، فوج، انٹیلیجنس اداروں اور سیاسی قیادت کو راست اقدامات اٹھانے چاہیں۔
’یہ جلا وطن رہنما قومی دھارے میں شامل ہوں گے تو مسلح تنظیموں پر بھی اس  کا اثر ہوگا اور بلوچ نوجوانوں کی ترجیحات میں تبدیلیاں آئیں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ مذاکراتی عمل کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر صوبے کے اندر سرمایہ کاری، روزگار اور تعلیم کے مواقع پیدا کیے جائیں تو حالات میں یقینا مثبت تبدیلیاں پیدا ہوں گی۔

شیئر: