Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹی 20 ورلڈ کپ: ویسٹ انڈیز اعزاز کا دفاع کر پائے گا؟

ٹی 20 ورلڈ کپ اسی سال عرب امارات اور عمان کے کرکٹ گراؤنڈز میں ہونے جا رہا ہے (فوٹو: آئی سی سی)
جب بھی ٹی 20 کرکٹ کا تذکرہ ہو تو سب سے پہلے ویسٹ انڈیز ٹیم کا نام ذہن میں آتا ہے کیونکہ ٹی 20 کرکٹ کو اس ٹیم کا فارمیٹ سمجھا جاتا ہے۔
اس ٹیم کے پاس ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو تن تنہا میچ کا پانسہ پلٹ کر اسے جتوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں کریس گیل، ڈیرن سیمی، مارلن سیموئلز، ڈیوان براوو، کیرن پولارڈ، آندرے رسل، سنیل نرائن اور کارلوس بریتھ وائٹ شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کھیلی جانے والی تمام بہترین ٹی 20 لیگز میں ان کھلاڑیوں کی مانگ سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ 
ان کھلاڑیوں نے ٹی 20 لیگز میں جہاں اپنی لاجواب کارکردگی سے کئی ٹیموں کو چیمپیئن بنوایا، وہیں اپنی قومی ٹیم کو بھی دو دفعہ ٹی 20 ورلڈ چیمپیئن بنوانے کا سہرا انہی کھلاڑیوں کے سر ہے۔
2012 کے ٹی 20 ورلڈ کپ فائنل میں سری لنکا کے خلاف ویسٹ انڈیز کی جیت میں مارلن سیموئلز کی دھواں دھار بلے بازی، سنیل نرائن کی لاجواب بولنگ اور ڈیرن سیمی کی عمدہ آل راؤنڈ کارکردگی نے اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ 2016 ٹی 20 ورلڈ کپ جو کہ انگلینڈ میں کھیلا گیا تھا، اس کے فائنل میں میزبان ٹیم انگلینڈ کے خلاف جیت کا سہرا مارلن سیموئلز کی عمدہ بلے بازی اور ڈیوان براوو کی آل راؤنڈ کارکردگی کے سر جاتا ہے، مگر اس میچ کے اصلی ہیرو تو کارلوس بریتھ وائٹ ہی تھے جنہوں نے پہلے اپنی عمدہ بولنگ کی بدولت چار اوورز میں صرف 23 رنز دے کر تین وکٹیں لیں اور پھر 10 گیندوں پر چار چھکوں کی مدد سے 34 رنز بنا کر ایک بظاہر ہارے ہوئے میچ کو اپنی ٹیم کے نام کر دیا تھا۔
کارلوس نے چاروں چھکے ایک ہی اوور میں بین سٹوکس کو مارے تھے۔ جس پر ویسٹ انڈین کمنٹیٹر این بشپ کا یہ فقرہ ’ریمبر دی نیم، کارلوس بریتھ وائٹ‘بہت مشہور ہوا تھا۔
اس کے بعد ٹی 20 ورلڈکپ کا انعقاد، 2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ کی وجہ سے 2020 میں ہونا تھا لیکن کورونا وبا کے باعث اسے ملتوی کردیا گیا تھا، تاہم اب اس سال اکتوبر، نومبر میں اس ٹورنامنٹ کا انعقاد متحدہ عرب امارات اور عمان کے کرکٹ گراؤنڈز میں ہونے جا رہا ہے۔ 

ویسٹ انڈیز کو ڈیرن سیمی کی خدمات حاصل نہیں ہوں گی کیونکہ اب وہ کوچنگ سے وابستہ ہیں (فوٹو: گیٹی امیجز)

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی طرف سے اس کے شیڈول کا اعلان بھی حال ہی میں کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق ٹورنامنٹ کا آغاز 17 اکتوبر سے ہوگا اور 14 نومبر کو اختتام پذیر ہوگا۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو اس ٹورنامنٹ میں نیوزی لینڈ، پاکستان، آسٹریلیا اور دو ٹیمیں جو ابتدائی راؤنڈز سے کوالیفائی کریں گی ان سے مقابلہ کرنا ہو گا۔
گو کہ ویسٹ انڈیز کو اسے دو مرتبہ چیمپیئن بنوانے والے کپتان ڈیرن سیمی کی خدمات حاصل نہیں ہوں گی جو کہ اب کوچنگ سے وابستہ ہو گئے ہیں، لیکن پھر بھی اس ٹیم میں دیگر کئی بڑے نام تو موجود ہوں گے تو یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ویسٹ انڈیز کی ٹیم ان بڑے ناموں کے ساتھ اپنے اعزاز کا کامیاب دفاع کر پائے گی؟ 
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں ویسٹ انڈیز کی گذشتہ دو ٹی 20 سیریز میں کارکردگی کا جائزہ لینا ہوگا۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے اپنی دو گذشتہ ٹی 20 سیریز سری لنکا اور ساؤتھ افریقہ کے خلاف کھیلیں۔
مارچ میں کھیلی جانے والی سری لنکا کے خلاف تین ٹی 20 میچز کی سیریز میں گو کہ ویسٹ انڈیز نے 1-2 سے کامیابی حاصل کی لیکن حقیقت میں سری لنکا کی کمزور ٹیم کے خلاف ویسٹ انڈیز کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا، خاص طور پر سری لنکا کے سپنرز کے خلاف ویسٹ انڈین بلے باز بری طرح ناکام ہوئے تھے اور دو میچوں میں 140 کے ہدف کو حاصل کرتے ہوئے بھی اپنی چھ، سات وکٹیں گنوا دی تھیں۔

 ٹی 20 ورلڈ کپ سے پہلے ویسٹ انڈیز نے پاکستان کے خلاف پانچ ٹی 20 میچ کھیلنے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے بعد ابھی حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والی ساؤتھ افریقہ کے خلاف پانچ ٹی 20 میچز کی سیریز میں ویسٹ انڈین ٹیم کو 2-3 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سیریز کے پہلے میچ میں جب ویسٹ انڈیز نے آٹھ وکٹوں سے باآسانی ساؤتھ افریقہ کو شکست دی تو ایسا لگ رہا تھا کہ ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈ پر باآسانی یہ سیریز اپنے نام کر لے گی، مگر اگلے دونوں میچز میں اتنی اچھی بیٹنگ لائن اپ کے ہونے کے باوجود بھی ویسٹ انڈین ٹیم 167اور 168 کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ چوتھے میچ میں اس نے ساؤتھ افریقہ کو 21 رنز سے شکست دے کر سیریز 2-2 سے برابر کردی۔ 
اسی طرح پانچویں اور فیصلہ کن میچ میں پھر 169 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پوری ٹیم محض 143 رنز ہی بنا سکی اور اس طرح یہ میچ ساؤتھ افریقہ نے 25 رنز سے جیت کر اس سیریز کو اپنے نام کر لیا۔
ویسٹ انڈین ٹیم نے جو تین میچ اس سیریز میں ہارے، ان میں بھی اس کے بلے باز ساؤتھ افریقہ کے سپنرز خاص طور پر تبریز شمسی، جو کہ اس وقت نمبرون ٹی ٹونٹی بولر ہیں، ان کے خلاف مکمل طور پر ناکام نظر آئے۔

ویسٹ انڈیز کی ٹیم ٹی 20 ورلڈ کپ سے قبل پانچ میچ آسٹریلیا کے خلاف بھی کھیلے گی (فوٹو: اے ایف پی)

پوری سیریز میں کوئی بھی بلے باز ایسا نظر نہیں آرہا تھا جو وکٹ پر رک کر آخر تک کھیل جاتا۔ اسی طرح اگر ویسٹ انڈیز کے بولرز کی بات کی جائے تو گو کہ اس کے پاس ٹی 20 کے حساب سے اچھے فاسٹ بولرز موجود ہیں مگر اس کے پاس کوالٹی سپن بولر موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مخالف ٹیمیں ان کے اس کمزور پہلو کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں اور اچھا سکور بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ ساؤتھ افریقہ کی سیریز میں بھی یہی ہوا۔ ویسٹ انڈیز نے فیبین ایلن، عقیل حسین اور کریس گیل کو آزمایا مگر کوئی بھی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکا۔ اس ساری صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ویسٹ انڈیز نے آنے والے ٹی 20 ورلڈ کپ میں اپنے اعزاز کا کامیاب دفاع کرنا ہے تو اسے اپنی ٹیم کا کمبی نیشن مزید بہتر کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے تو اپنی بیٹنگ لائن اپ میں ایک یا دو ایسے بلے بازوں کو شامل کرنا ہوگا جو سپن بولنگ کو اچھا کھیل سکیں اور وکٹ پر رک کر ایک اینڈ سنبھال لیں اور دوسری طرف سے سب پاور ہٹرز اپنا کھیل کھیلتے رہیں کیونکہ اس وقت ٹیم میں شروع سے لے کر آخر تک پاور ہٹرز کی بھرمار ہے لیکن اس کے باجود بھی وہ اچھا سکور نہیں کر پا رہے ہیں۔

ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں کئی ایسے کھلاڑی شامل ہیں جو تنہا ہی میچ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں (فوٹو: گیٹی امیجز)

اس کے ساتھ انہیں سیموئیل بدری اور سنیل نرائن جیسا ایک کوالٹی سپن بولر بھی اپنی لائن اپ میں شامل کرنے کی ضرورت ہے جو کہ مڈل یا شروع کے پاور پلے اوورز میں اچھی بولنگ کر سکے۔
 ٹی 20 ورلڈ کپ سے پہلے ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا اور پاکستان کے خلاف پانچ، پانچ ٹی 20 میچز کھیلنے ہیں، تو ان کے لیے اپنی ٹیم کا بہتر کمبی نیشن بنانے کے لیے یہ دونوں سیریز بہت مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔ اگر تو ٹیم ویسٹ انڈیز نے اپنی خامیوں پر قابو پا کر ان دونوں سیریز میں حصہ لیا تو وہ شاید بہتر طریقے سے ٹی 20 ورلڈ کپ میں اپنے اعزاز کا دفاع کر پائے گی، ورنہ ان کو کافی  مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

شیئر: