Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امارات میں ورلڈ کپ کون جیتے گا؟ ’دل کہتا ہے پاکستان‘

انڈٰیا میں کورونا وائرس کی خراب صورت حال کے باعث ٹی 20 ورلڈ کپ کو یو اے ای منتقل کر دیا گیا ہے (ٖفوٹو: اے ایف پی)
ناظرین و حاضرین ٹی 20 ورلڈ کپ آ رہا اور ہم سب کا چین و قرار جا رہا ہے۔ سال 2021 میں اکتوبر میں شروع ہونے والا یہ عالمی مقابلہ انڈیا میں ہونا تھا جس کی وجہ سے یہ ٹورنامنٹ عزت کا مسئلہ بن چکا تھا۔ ہار تو جانا ہوتا ہے لیکن انڈیا میں ہارنا اسی طرح دُکھتا ہے جیسے آپ کا  پہلی بار محبت میں دل ٹوٹتا ہے۔
آگے زندگی میں فواد خان بھی مل جائے، وہ پہلا عاشق نہیں بھولتا اور ہمیں تو انڈیا سے ہار بار بار بھولنا پڑتی ہے لیکن اس ہونے والے صدمے میں ایک تبدیلی آ گئی ہے، اور اب یہ ٹورنا منٹ انڈیا میں نہیں، متحدہ عرب امارات میں ہو رہا ہے۔
اس کا سارا کریڈٹ کورونا کو جاتا ہے اور متحدہ عرب امارات تو آپ جانتے ہی ہیں ہمارا دوسرا گھر ہے۔ جب کورونا نہیں بھی آیا تھا، ہم تب سے اُدھر ہی کھیل رہے ہیں۔ اب ہمیں متحدہ عرب امارت اور پاکستان میں کوئی خاص فرق نہیں لگتا لیکن باقی سب کو یہ فرق لگے گا کیا؟
پاکستان نے ابھی ابھی اپنی پاکستان سپر لیگ یو اے ای میں ہی ختم کی ہے۔ رات کے گڑونجا وجے میچ تو ہوئے لیکن ٹورنامنٹ مکمل ہو گیا مگر انڈیا میں ٹی 20 ورلڈ کپ کا ہونا میرے لیے زیادہ دلچسپ ہوتا۔ روایتی حریف ہونے کے ناطے اک خلش سی رہے گی کہ کاش انڈیا اور پاکستان اک دوسرے کے خلاف انڈین زمین پر کھیلتے۔
میرے مطابق انڈیا اور پاکستان کا میچ دونوں میں سے کسی بھی ملک میں دیکھنے کے لیے پوری کائنات کے ایلینز اور جنات بھی آ جائیں تو یہ تشنگی تو رہے گی، یہ اور بات ہے کہ پاکستان کے گروپ میں ویسٹ انڈیز، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیمیں ہیں جس میں ہم بالکل ایسے لگ رہے ہیں جیسے ہم یہاں امب لینے آئے ہیں، لیکن اگر ہم واقعی گروپ میں سے آگے آ جاتے اور انڈیا کے خلاف انڈیا میں ہی میچ ہوتا تو کیا کمال ہوتا۔

’انڈیا کی ٹیم بولنگ اور بیٹنگ دونوں میں کافی مضبوط ہے‘ (فوٹو: اے پی)

یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی بھی کھانے میں پودینہ ڈال دیں تو اس کی شان ہی کچھ اور ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر انڈیا کی طرف دیکھیں تو اُنہیں اپنی زمین پر کھیلنے کا فائدہ کافی ہوتا۔ انڈیا کی ٹیم بولنگ اور بیٹنگ دونوں میں کافی مضبوط ہے۔ وہاں اپنے لوگوں میں کھیلنے کا نہ صرف مزہ آتا بلکہ ان کے حوصلے بھی بلند ہوتے۔ اگر وہ وہاں پاکستان سے جیت جاتے تو پِھر تو پورا انڈیا عمران طاہر کی طرح خوشی کے مارے بھاگتے ہوئے کینیڈا پہنچ جاتا، لیکن یہ کہنا کہ انڈیا کی پرفارمنس پر کوئی فرق پڑے گا، مشکل ہے۔ ان کی ٹیم میں بیٹنگ صرف شروع ہوتی ہے اور پِھر کبھی ختم نہیں ہوتی۔
انڈیا کے کرکٹ شائقین تو اِس وقت کافی دُکھی ہوں گے۔ یہ کسی بھی ملک کے لیے بڑے فخر کی بات ہوتی ہے کہ کوئی بڑا ٹورنامنٹ وہاں منعقد ہو، اور شاید انڈیا میں یہ ٹورنامنٹ ہونے سے ملک کو وقتی طور پر کورونا کی تباہ کاری کی یاد سے چھٹکارا مل پاتا، لیکن پاکستانی ٹیم کے شائقین کے لیے اِس سے بہتر خبر نہیں ہو سکتی۔ ایک تو متحدہ عرب امارت ہمارا دوسرا گھر ہے۔ دوسرا یہ کہ ’خدانخواستہ‘ اگر ہم گروپ سٹیج سے آگے آ گئے  اور ’خدانخواستہ‘ انڈیا سے مقابلہ ہو گیا اور خدانخواستہ ہم ہار گئے، تو شاید اتنا غم نہ ہو۔

’دوسری بات یہ ہے کہ انڈیا سے خدانخواستہ ہار گئے، تو شاید اتنا غم نہ ہو‘ (فوٹو: سپورٹس پری)

جہاں تک ہماری پرفارمنس کا تعلق ہے۔ میرا یہ اصول ہے کہ انسان کی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسی اصول کے تحت میں کچھ نہیں کہوں گی کیونکہ اِس ٹیم کا کوئی بھروسہ نہیں اور شاید اسی لیے اِس ٹیم کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔
ٹی 20 کرکٹ کا عالمی مقابلہ چاہے جہاں بھی ہو، ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان کی ٹیم میں حفیظ اور ملک ضرور ہوں گے، تو اِس سے پہلے کہ آپ بہت زیادہ امیدیں لگا لیں، بہتر ہے کہ ایک چھنکنا لے کر اپنے آپ کو خوش کر لیں۔ باقی میرے مطابق جیتے گا کون؟ دماغ کہتا ہے کوئی بھی نہیں اور دِل کہتا ہے پاکستان،  اِس دِل و دماغ کی لڑائی میں کون جیتے گا؟ دیکھتے ہیں اکتوبر میں
 

شیئر: