’میں ایک مزدور ہوں اور بھرائی کا کام کرتا ہوں۔ ہر روز مزدوری ڈھونڈنے نکل جاتا ہوں۔ نو جولائی کو بھی میں صبح سویرے ہی نکل گیا۔ جب رات کو واپس آیا تو میری دنیا ہی اندھیر ہو چکی تھی۔‘
پنجاب کے ضلع حافظ آباد میں گذشتہ ہفتے ہونے والا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کو سناتے ہوئے کمسن مریم (فرضی نام) کے والد کے آنسو تھم ہی نہیں رہے تھے۔
’ہم تو یقین نہیں کر پا رہے کہ جس شخص نے یہ ظلم کیا ہے وہ ہمارے ہی محلے کا ہے اور بچوں کو اکثر کھانے پینے کی اشیا بھی دیتا تھا۔‘
کم سن بچی کی عمر صرف سات سال ہے جو نہ سن سکتی ہے اور نہ ہی بول سکتی ہے۔
مزید پڑھیں
-
زیادتی کیس:عابد ملہی کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظورNode ID: 510846
-
ملازمت کا جھانسہ دے کر لڑکی سے مبینہ زیادتی، ملزم گرفتارNode ID: 582981
’گھر واپس آیا تو میری بیوی نے بتایا کہ قریب دن ایک بجے مریم اپنے گھر کے سامنے ایک حویلی میں کھیل رہی تھی۔ ایک گھنٹے کے بعد وہ گھر آئی تو اس نے روتے ہوئے اشاروں سے بتایا کہ کس طرح اس کا ریپ کیا گیا ہے۔‘
حافظ آباد میں ہی 8 جولائی کو ہونے والے ایک اور واقعے میں 14سالہ لڑکی جس کے ہاتھ پاؤں ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتے اس کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
لڑکی کے والد نے بتایا کہ وہ رکشہ چلا کر بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
’میری بیٹی گھر سے برف لینے محلے کے ایک دوسرے گھر جا رہی تھی جب گلی سے ہی میری بچی کو ایک شخص نے اغوا کر لیا۔ اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔‘
اہم بات یہ ہے کہ ملزم بھی اسی محلے کا ہے اور برسوں سے یہیں رہتا ہے۔

12 جولائی کو ضلع حافظ آباد کے تھانہ کالیکے کی حدود میں ایک چھ سالہ بچی ریحانہ (فرضی نام) کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
ان کے والد نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ ایک معمولی زمیندار ہیں اور وہ اس وقت کھیتوں پر تھے جب شام چار بجے کے قریب ان کی بیٹی گھر کے باہر کھیلتے کھیلتے اچانک غائب ہو گئی۔
’ایک گھنٹے تک جب وہ نہیں آئی تو ہم سب اسے ڈھونڈنا شروع ہو گئے۔ شام کے قریب کچھ لوگوں نے نشاندہی کی کہ جب ریحانہ کھیل رہی تھی تو شاہد نامی ایک شخص جس کا اس گاؤں میں آنا جانا رہتا ہے وہ بچی کو بلا رہا تھا۔ جس کے فوری بعد ہم نے پولیس کو فون کیا اور پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے کے بعد اس ملزم کو گرفتار کیا۔ اس نے نشاندہی کی کہ بچی کو ریپ کے بعد اس نے مار کے کہاں دفن کیا تھا۔‘
ایک چوتھے واقعے میں 8 جولائی کو ہی حافظ آباد کے نواحی قصبے رسولپور تارڑ میں آٹھ سالہ بچے کو اس کے گھر کے قریب ہی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جب وہ ٹیوشن پڑھنے کےبعد گھر واپس آرہا تھا۔
6 اور 12 جولائی کے درمیان ہونے والے ان چار واقعات نے علاقے میں خوف کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ ضلع کے پولیس چیف رانا معصوم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے ان کیسز سے متعلق ہر اطلاع کو فوری طور پر سنجیدہ لیا اور نہ صرف فوری مقدمے درج کیے بلکہ تمام ملزمان کو گرفتار بھی کیا۔
’پورے ضلع کی پولیس نے آپریشن کیے اور ٹیکنالوجی کی مدد بھی لی اور جہاں جہاں ملزم چھپے تھے سب گرفتار ہوئے۔ ابھی ہم نے ان کا ریمانڈ لے رکھا ہے اور تفتیش کر رہے ہیں۔‘
