Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیلی اور فلسطینی سفیروں کی سلامتی کونسل پر تنقید

فلسطین کے مستقل مبصر ریاض منظور نے بھی سلامتی کونسل کو ’جارحیت اور جنگ میں اس کی حدود‘ کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ (فوٹو: عرب نیوز)
اقوام متحدہ میں اسرائیل اور فلسطین کے سفیروں نے سکیورٹی کونسل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اسرائیل کے امریکہ اور اقوام متحدہ کے لیے سفیر جلعاد اردان نے بدھ کو کونسل کے ارکان پر مشرقی یروشلم کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے پر تنقید کی کہ وہ اس معاملے پر بحث کر کے وقت ضائع رہے ہیں۔

 

انہوں نے کہا کہ ’اس کی بجائے ایران اور خطے میں اس سے پیدا ہونے والا بحران، جیسے لبنان، شام، یمن اور عراق اور ساتھ ہی حماس کی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔‘
اسرائیلی سفیر نے کہا کہ ’ایران اور حماس مشرق وسطیٰ کو قرون وسطیٰ کے اندھیروں میں رکھنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔‘
وہ سکیورٹی کونسل کی مئی میں غزہ کی جنگ کے بعد انسانی امداد اور تعمیر نو کی کوششوں، مشرقی یروشلم سے فلسطینی خاندانوں کی بے دخلی اور ان کے مکانات کی مسماری، فلسطینی سکیورٹی فورسز کی جانب سے کرپشن کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر تشدد اور گذشتہ مہینے سیاسی کارکن نزار بنات کی فلسطینی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری کے دوران موت کے حوالے سے ہونے والی میٹنگ میں بات کر رہے تھے۔
جلعاد اردان نے 15 رکنی کونسل سے پوچھا کہ ’کیا آج لبنان کے بحران پر بات نہیں کی جانی چاہیے؟‘

جلعاد اردان نے کہا کہ ’ایران اور حماس مشرق وسطیٰ کو قرون وسطیٰ کے اندھیروں میں رکھنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے اقوام متحدہ پر اسرائیل کے خلاف تعصب کا الزام عائد کیا اور کونسل پر يوديث اوبنهايمر کو بریفنگ کی دعوت دینے پر تنقید کی۔
يوديث اوبنهايمر ’ار عمیم‘ نامی اسرائیلی این جی او کی ایگزیگٹو ڈائریکٹر ہیں جو جو یروشلم کو اپنے تمام باشندوں کے لیے ایک محفوظ شہر بنانے کی مہم چلاتی ہے۔
اقوام متحدہ میں فلسطین کے مستقل مبصر ریاض منظور نے بھی سلامتی کونسل کو ’جارحیت اور جنگ میں اس کی حدود‘ کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ناکامیوں کا مطلب یہ ہے کہ کونسل کا ’فعال طور پر امن کے حصول کے لیے اس سے بھی بڑا فریضہ ہے۔‘
ریاض منظور نے کہا کہ ’اس منزل کو جانے والے راستے کو وہ جانتا ہے۔ یہ اس کی اپنی قراردادوں میں لکھا ہوا ہے جس میں قرارداد 2334 بھی شامل ہے۔‘
اس قرارداد میں مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی آبادکاری کی سرگرمیوں کو بین الاقوامی قوانین کی ’واضح خلاف ورزی‘ قرار دیا گیا ہے۔

شیئر: