Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں بلیک اینڈ وائٹ فوٹو گرافی کے شاہکار

فولک عباس 2013 سے جدہ کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں لیکچرر ہیں۔ (فوٹو عرب نیوز)
نائیجیرین نژاد برطانوی فوٹوگرافر فولک عباس اپنی بلیک اینڈ وائٹ فوٹوگرافی کی وجہ سے سعودی عرب میں آرٹ کے شعبے میں انتہائی مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔
سعودی عرب میں ہزاروں فوٹو گرافر رنگین تصاویر میں کافی دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں اور یہ تصاویر خوبصورتی میں لازوال اضافہ کا باعث بھی بنتی ہیں۔
عرب نیوزمیں شائع ہونے والی سٹوری کے مطابق برطانوی نائیجیرین فوٹوگرافر فولک عباس 2013 سے جدہ کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں انجینئرنگ کے شعبے میں لیکچرر ہیں۔

جدہ کے تاریخی علاقے البلد کی خوبصورتی سے محبت ہوگئی اور مضبوط تعلق بن گیا۔

انہوں نے اپنے فن عکاسی کے شوق کو ابھارتے ہوئے سعودی آرٹ سین میں مملکت کے انتہائی مثاثر کن فن تعمیر،عرب رہن سہن اور ثقافتی منظر نامے کی بلیک اینڈ وائٹ تصویرکشی کی وجہ سے کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔
عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے نائیجرین نژاد فوٹو گرافر نے بتایا کہ انہوں نے جدہ میں آتے ہی فوٹو گرافی شروع کر دی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ میرے دوست مجھے جدہ کے تاریخی علاقے البلد لے گئے۔ اس علاقے کی خوبصورتی سے مجھے محبت ہوگئی اور تب سے میرا وہاں ایک مضبوط تعلق بن گیا۔
وہاں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اب  مجھے جانتے ہیں کیونکہ میں زیادہ تر وقت ان کی تصاویر کھینچی ہوں۔ وہ علاقہ مجھے  تصویر کشی کی جانب راغب کرتا ہے اورمیں وہاں بہت راحت محسوس کرتی ہوں۔

فولک عباس نے گزشتہ چند برسوں سے اپنا  ایک خاص انداز اپنایا ہے۔ انہوں نےنائیجیریا کے فوٹوگرافروں کے ایک گروپ کو چیلنج  دیا ہے کہ وہ 2019 میں لی گئی تصاویر کو تجربے کے طور پر رنگین سے  یک رنگی یا بلیک اینڈ وائٹ میں تبدیل کریں۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ وہ  بلیک اینڈ وائٹ دنیا کے عظیم فوٹوگرافروں جیسے اینسل ایڈمز، ویوین مائر، ہینری کارٹیر بریسن، میری ایلن مارک اور ڈوروتھیا لینگ سےبہت متاثر ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے سوچا کہ مملکت میں مزید کون سے ایسے علاقے ہیں جو پوشیدہ جواہرات کی مانند ابھی نظروں سے اوجھل ہیں جنہیں کیمرے کی آنکھ سے دنیا کے سامنے اجاگر کیا جائے۔
وہ ایک عرصہ تک قریبی علاقے طائف اور مشرقی ریجن کے شہردمام میں فوٹو گرافی کے لیے جاتی رہیں۔
کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والے ماحول میں انہیں ایک عکاس کے طور پر مزید بہت کچھ دیکھنے کا موقع میسر آیا۔

انہوں نے بتایا کہ  اس سے قبل واقعی   مجھے بہت سے علاقوں میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔میں نے سوچا مجھے سعودی عرب کے تمام علاقے دیکھنے چاہئیں اور ہر علاقے کی عکاسی کرنی چاہئے۔
اس کے بعد انہوں نے مملکت کے مختلف شہروں کے دروے کئے ، لوگوں سے رابطے کئے۔
فولک کا کہنا ہے کہ جب آپ شہر کی عمارات کے درمیان رہتے ہیں تو آپ کو سر سبز علاقوں کا اندازہ نہیں ہوتا ، آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ملک  کیسا ہے۔
یہ تب تک ممکن نہیں ہے جب آپ خود بذریعہ سڑک سفر نہ کریں اور وادیوں اور گھاٹیوں میں نہ اترین۔ یہ ملک حقیقی معنوں میں قابل تعریف ہے۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک فوٹوگرافر کے طور پر سعودی عرب کی  شناخت کی ہے۔میں اس ملک میر ے لیے یادگار ہے جہاں میں نے فن عکاسی کا اپنا شوق پورا کیا۔
فولک عباس نے سعودی عرب میں  دو گروپ نمائشوں میں حصہ لیا  ۔یکم نومبر 2017 میں جدہ میں اور جنوری 2021 ریاض میں منعقد ہوئی۔اس کے علاوہ انہوں نے اکتوبر 2018 ، دسمبر 2019جدہ میں اور تیسری فروری 2020 میں ریاض میں فوٹو گرافی کی نمائش کی۔
اس نے مارچ میں سعودی عرب کے تاریخی علاقے   العلا کا  دورہ کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک شاندار اور لازوال جگہ ہے۔ انہوں نے وہاں جو آرٹ ورک بنایا ہے وہ ان کے دل کے قریب ترین ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ جو تصاویر میں نے وہاں بنائی ہیں ان کے بارے میں مجھے جو پسند ہے وہ یہ ہے کہ پوری جگہ آپ کو ایسا محسوس ہوتا  ہے جیسے آپ ایک ایسے دور میں ہیں جو انتہائی قدیم ہے اور جو  ہزاروں سال کی تاریخ کا حصہ ہے۔

ان تصاویر میں سب سے زیادہ پسندیدہ 'مقبرہ الحجر' کی تصویرہے جو ایک شاندارعمارت ہے۔
اس مہم جوئی کے دوران انہوں نے سعودی مہمان نوازی اور شاندار روایات کا تجربہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اس چیز سے بے حد متاثر ہوں کہ دوران سفر میرا کتنے کشادہ دل لوگوں سے سامنا ہوتا ہے۔ لوگ آپ کی مدد کرنے اور سب کچھ بتانے کے لیے تیار ہیں اور وہ آپ کو وہاں تک پہنچا دیں گے جہاں آپ جانا چاہتے ہیں۔
آخر میں انہوں نے بتایا کہ میں نے دنیا بھرمیں بہت سفرکیا اور بہترین تجربات ہوئے لیکن میرے لیے ایسا شاندار کچھ بھی نہیں جو مجھے واقعی بہت پسند ہے۔
 

شیئر: