سی آئی اے کا گمشدہ جوہری آلہ: ہمالیائی دیہات میں 60 برس بعد بھی خوف کی بازگشت
سی آئی اے کا گمشدہ جوہری آلہ: ہمالیائی دیہات میں 60 برس بعد بھی خوف کی بازگشت
ہفتہ 20 دسمبر 2025 18:51
اراکین پارلیمان نے مطالبہ کیا کہ جوہری آلے کی جگہ ظاہر کی جائے اور سیاسی جواب دہی کا تعین کیا جائے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکی انٹیلی جنس افسران کی مدد کرنے والے وہ قلی جو ایک جوہری جاسوسی نظام کو انڈیا کی دوسری بلند ترین چوٹی نندا دیوی کی خطرناک اور دشوار گزار ڈھلوانوں تک اٹھا کر لے گئے تھے، جب واپس لوٹے تو ان کی کہانیاں قریبی دیہات میں سنسنی کی لہر بن کر پھیل گئیں۔
ان قصوں نے لوگوں کے دلوں میں ایسا خوف بٹھا دیا جو چھ دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی قائم ہے۔
عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق سی آئی اے کی ایک ٹیم انڈیا کے انٹیلی جنس بیورو کے تعاون سے ہمالیہ کے ایک دور افتادہ حصے میں یہ آلہ نصب کرنا چاہتی تھی تاکہ چین کی نگرانی کی جا سکے، لیکن شدید برفانی طوفان نے انہیں چوٹی تک پہنچنے سے پہلے ہی اس نظام کو وہیں چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
اس جاسوسی نظام میں انتہائی تابکار مادہ پلٹونیم-238 کی بڑی مقدار موجود تھا۔ تقریباً اتنا ہی جتنا دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپانی شہر ناگاساکی پر گرائے گئے امریکی ایٹم بم میں استعمال ہوا تھا یعنی اس کا لگ بھگ ایک تہائی۔
نندا دیوی کے قریب واقع گاؤں لاتا سے تعلق رکھنے والے نریندر رانا نے بتایا کہ ’1965 میں جو مزدور اور قلی (پورٹر)) سی آئی اے کی ٹیم کے ساتھ گئے تھے وہ جوہری آلے کی کہانی سناتے تھے اور تب سے گاؤں کے لوگ خوف میں مبتلا ہیں۔‘
نریندر رانا کے والد دھن سنگھ رانا بھی 1965 میں سی آئی اے کے اس مشن کے دوران اس آلے کو اٹھانے والے مزدوروں میں شامل تھے۔
نریندر رانا کے مطابق ’وہ کہتے تھے کہ برف کے نیچے ایک خطرہ دفن ہے۔ گاؤں والوں کا خیال ہے کہ جب تک وہ آلہ برف میں دبا ہوا ہے وہ محفوظ ہیں لیکن اگر وہ پھٹ گیا تو ہوا اور پانی آلودہ ہو جائیں گے اور پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔‘
1960 کی دہائی میں چین اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کے دوران 1964 میں چین کے پہلے جوہری تجربات کے بعد انڈیا نے نگرانی کے معاملے میں امریکہ کے ساتھ تعاون کیا۔ نندا دیوی کا یہ مشن اسی تعاون کا حصہ تھا اور برسوں تک خفیہ رکھا گیا۔ 1978 میں یہ معاملہ اس وقت عوام کے سامنے آیا جب آؤٹ سائیڈر میگزین نے اس خفیہ مشن کا انکشاف کیا۔
اس رپورٹ نے انڈیا میں ہلچل مچا دی تھی۔ اراکین پارلیمان نے مطالبہ کیا کہ جوہری آلے کی جگہ ظاہر کی جائے اور سیاسی جواب دہی کا تعین کیا جائے۔ اسی سال اس وقت کے وزیر اعظم مورارجی دیسائی نے ایک کمیٹی قائم کی تاکہ یہ جائزہ لیا جا سکے کہ نندا دیوی کے قریب دفن یہ جوہری مواد کہیں دریائے گنگا کو آلودہ تو نہیں کر سکتا جس کا منبع یہی علاقہ ہے۔
دریائے گنگا دنیا کے اہم ترین میٹھے پانی کے ذرائع میں سے ایک ہے جس پر انڈیا، نیپال اور بنگلہ دیش کے تقریباً 65 کروڑ 50 لاکھ افراد اپنی بنیادی ضروریات کے لیے انحصار کرتے ہیں۔
سائنس دانوں کی سربراہی میں قائم اس کمیٹی نے چند ماہ بعد اپنی رپورٹ پیش کی جس میں کسی بھی قسم کے خطرے کو مسترد کر دیا گیا اور کہا گیا کہ حتیٰ کہ بدترین صورتِ حال میں بھی اگر آلہ ٹوٹ جائے تب بھی دریا کا پانی آلودہ نہیں ہوگا۔
لیکن مقامی دیہاتیوں کے لیے یہ خوف کبھی ختم نہیں ہوتا کہ تابکار پلٹونیم رکھنے والا خول کہیں ٹوٹ نہ جائے اور ان کے خیال میں انہیں سکون شاید اسی وقت آئے گا جب وہ آلہ مل جائے۔
بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ گلیشیئر کی حرکت کرتی برف میں پھنسا یہ آلہ وقت کے ساتھ نیچے کی جانب سرک گیا ہوگا۔
نریندر رانا کے والد نے انہیں بتایا تھا کہ جب وہ آلہ اٹھا رہے تھے تو وہ گرم محسوس ہو رہا تھا اور ان کا خیال تھا کہ شاید وہ اپنی حرارت سے گلیشیئر کو پگھلاتا ہوا گہرائی میں دفن ہو گیا ہو۔
چٹان اور برف کا ایک ہیبت ناک پیکر نندا دیوی 7,816 میٹر کی بلندی کے ساتھ کنچن جنگا کے بعد انڈیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ ہے۔
2021 میں جب اس پہاڑ کے قریب ایک گلیشیئر ٹوٹا اور 200 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس وقت سائنس دانوں نے اس سانحے کی وجہ گلوبل وارمنگ کو قرار دیا لیکن قریبی دیہات میں ابتدا میں اس واقعے کو جوہری دھماکے سے جوڑا گیا۔
سی آئی اے کے اس مشن کی 60ویں سالگرہ پر شائع ہونے والے ایک مضمون نے ایک بار پھر بے چینی کو ہوا دے دی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
نریندر رانا نے کہا کہ ’لوگوں کو لگا کہ آلہ پھٹ گیا ہے۔ جو لوگ امدادی کارروائیوں میں مصروف تھے وہ بھی ڈرتے تھے کہ کہیں تابکاری سے نہ مر جائیں۔ اگر کوئی آواز سنائی دے یا آسمان میں دھواں دکھائی دے تو ہمیں فوراً جوہری آلے سے لیکج کا خوف ستانے لگتا ہے۔‘
یہ پوشیدہ خوف اس وقت ابھر آتا ہے جب کوئی قدرتی آفت آتی ہے یا میڈیا میں اس گمشدہ آلے کا ذکر دوبارہ ہونے لگتا ہے۔ حال ہی میں نیو یارک ٹائمز میں سی آئی اے کے اس مشن کی 60ویں سالگرہ پر شائع ہونے والے ایک مضمون نے ایک بار پھر بے چینی کو ہوا دے دی۔
اترکھنڈ کے قصبے جوشی مٹھ سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی کارکن اتل سوتی جو نندا دیوی سے تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’یہ خدشات حقیقی ہیں۔ 1965 کے بعد امریکی دو مرتبہ آلے کی تلاش میں آئے۔ دیہاتی ان کے ساتھ تھ، مگر آلہ نہیں ملا، جو آج تک مقامی لوگوں کے لیے باعث تشویش ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’لوگ پریشان ہیں۔ وہ بار بار حکومت سے جواب مانگتے رہے ہیں مگر اب تک کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔ وقتاً فوقتاً دیہاتی اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں، اور اس مسئلے پر حکومت کی جانب سے ایک حتمی بیان ضروری ہے۔”
جب بھی میڈیا میں یہ معاملہ دوبارہ سامنے آتا ہے، سوالات اٹھتے ہیں، لیکن دیسائی حکومت کی مقرر کردہ کمیٹی کی رپورٹ کے بعد سے انڈین حکام نے اس بارے میں کوئی تفصیلی تازہ معلومات جاری نہیں کیں۔
اتل سوتی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’حکومت کو عوام کے خدشات دور کرنے کے لیے ایک وائٹ پیپر جاری کرنا چاہیے۔ اس سے واضح ہو جائے گا کہ آلے کی موجودہ حیثیت کیا ہے اور آیا اس سے لیکیج کی صورت میں دریائے گنگا آلودہ ہو سکتا ہے یا نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت کو صاف بات کرنی چاہیے۔ اگر حکومت خاموش رہے گی تو اس سے لوگوں کا خوف مزید مضبوط ہو جائے گا۔‘