Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خارجہ پالیسی کی دھجیاں‘، معید یوسف تنقید کی زد میں

معید یوسف وزیراعظم پاکستان کے مشیر مقرر کیے جانے سے قبل واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک میں کام کرتے رہے ہیں۔ (فوٹو: ویڈیو گریب)
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے برطانوی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں شکوہ کیا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد اب تک امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیراعظم عمران خان سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں کیا۔
واشنگٹن میں فنانشل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’امریکی صدر نے اب تک ایک ایسے اہم ملک کے وزیراعظم سے بات نہیں کی جس کے بارے میں امریکہ خود کہتا ہے کہ اس کا کردار بہت سارے معاملات میں میک اور بریک والا ہوتا ہے۔‘
معید یوسف کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امریکی انتظامیہ پاکستان کو کیا ’سگنل‘ دینا چاہ رہی ہے. انہیں ہر بار کہا جاتا ہے کہ فون کال ہوجائے گی اور پھر ایسا نہ ہونے کی وجہ تکنیکی مسئلہ بتایا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ایک فون کال ایک رعایت ہے، اگر سکیورٹی تعلقات ایک رعایت ہے تو پاکستان کے پاس دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔‘

امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے وزیراعظم خان کو فون نہ کرنے کا ذکر پہلی بار نہیں ہو رہا، اس سے قبل بھی معید یوسف اس حوالے سے بات کرتے رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے خود بھی امریکی ویڈیو سٹریمنگ سروس ایچ بی او میکس کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ جب بھی جو بائیڈن کے پاس وقت ہو وہ مجھ سے بات کر سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فی الحال واضح طور پر ان کی [صدر جو بائیڈن کی] ترجیحات مختلف ہیں۔‘

امریکہ پاکستان کو افغانستان کے زاویے سے دیکھتا ہے؟

امریکہ میں بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ڈاکٹر مدیحہ افضل اپنی ایک ٹوئٹ میں کہتی ہیں کہ ’اس سے پتہ چلتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ پاکستان کو ابھی افغانستان کے زاویے سے دیکھتی ہے، نہ کہ دنیا کے پانچویں بڑے اور اہم ملک کی نظر سے۔‘

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے مدیحہ کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’بائیڈن نے اب تک برازیل کے صدر بولسونارو کو بھی فون نہیں کیا ہے جو آبادی کے اعتبار سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک کے سربراہ ہیں۔ ریاست، سربراہوں کے درمیان تعلقات اور رابطوں کی وجہ ملکوں کے باہمی مفادات ہوتے ہیں، نہ کہ آبادی کا حجم۔‘

سوشل میڈیا پر طنز و تنقید

کچھ سوشل میڈیا صارفین معید یوسف کے تازہ انٹرویو کے بعد ان پر شدید تنقید کرتے رہے۔
اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے مشیر برائے قومی سلامتی کے بیان کو پاکستان کے عزت و وقار اور خارجہ پالیسی کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف قرار دیا۔
تاہم وزیراعظم عمران خان کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ڈاکٹر ارسلان خالد کو غریدہ فاروقی کی تنقید ایک آنکھ نہ بھائی۔ انہوں نے لکھا کہ ’افغانستان اور خارجہ امور کی الف ب کا بھی پتہ نہیں پر ٹویٹ کرکے لنکس مختلف واٹس ایپ گروپس میں پھینکے جا رہے ہیں۔‘

پاکستانی تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ نے بھی طنزا کہا کہ اگر اب صدر بائیڈن وزیراعظم عمران خان کو کال کر لیتے ہیں تو یہ معید یوسف کا ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔

ایک صارف احسن حامد درانی نے صدر بائیڈن کا وزیراعظم عمران خان کو فون کال نہ کرنا معید یوسف کی ناکامی قرار دیا۔

فنانشل ٹائمز کے خلاف قانونی کارروائی؟

پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور پارلیمانی سیکریٹری برائے خارجہ امور عندلیب عباسی نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر فنانشل ٹائمز نے معید یوسف کی بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر رپورٹ کیا ہے تو اخبار کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے۔

شیئر: