Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

31 سال پہلے جب غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کو گھر بھیج دیا

35 سال کی عمر میں بےنظیر دنیا کی کم عمر ترین اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سنہ 1990 کے اگست کے پہلے عشرے میں انگریزی روزنامے ’فرنٹیئر پوسٹ‘ میں ایک کارٹون شائع ہوا۔ دو حصوں پر مشتمل خاکے میں ایک طرف 1988 کا ایک منظر جبکہ دوسری طرف 1990 کے حالات کی عکاسی کی گئی تھی۔ 1988 والے حصے میں دکھایا گیا کہ بغیر پہیوں کے ایک کار اینٹوں کے ڈھیر پر کھڑی ہے۔ صدر غلام اسحاق خان بے نظیر بھٹو کو اس کی چابی پکڑاتے ہوئے کہتے ہیں ’اسے چلائیں‘۔
تصویری خاکے کے دوسرے حصے میں بے نظیر بھٹو گاڑی کے پچھلے ٹائر لگا چکنے کے بعد فرنٹ ویل لگانے میں مصروف ہیں۔ یہاں بھی غلام اسحاق خان سامنے کھڑے ہیں اور حکم دے رہے ہیں ’اب اسے روک دیں۔‘ 
لائنوں کے خاکوں پر مشتمل یہ بلیغ  تبصرہ چھ اگست 1990 کو بے نظیر بھٹو کی حکومت کی رخصتی کے بعد شائع ہوا۔ دسمبر 1988 سے اگست 1990 تک بے نظیر بھٹو کا 20 مہینوں کا اقتدار سمجھوتوں، سازشوں اور سیاسی نشیب و فراز کی ایک داستان ہے۔ انھیں اقتدار سے دور رکھنے کی کوششوں کا آغاز جون 1988 میں ہی ہو گیا تھا۔
مئی 1988 میں جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد ضیاالحق ایک اور غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے تابع فرمان حکومت کے قیام کا ڈول ڈالنے کا سوچ رہے تھے۔  بے نظیر بھٹو کی بڑھتی مقبولیت اور ضیائی نظام سے عوام میں بیزاری ان کے لیے مستقل سر درد تھا۔
امریکہ میں مقیم محقق اور دانشور شجاع نواز اپنی کتاب Crossed Swords :Pakistan Its Army and the Wars Within میں ضیا الحق کے چیف آف سٹاف جنرل رفاقت کی زبانی ضیا الحق کے سیاسی ارادوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کے مطابق ضیا الحق انتخابات سے قبل ایک نیا قانون لانے پر غور کر رہے تھے۔ جس کے مطابق وہ شخص وزیراعظم نہیں بن سکتا تھا جو الیکشن میں ہر صوبے سے پول شدہ ووٹوں کا پانچ فیصد حاصل نہ کر سکے۔ جنرل رفاقت کے مطابق انہیں یقین تھا کہ بے نظیر بھٹو بلوچستان سے مطلوبہ ووٹ نہیں لے سکتیں۔
ضیا الحق کے طیارہ کے حادثے میں موت سے اس قانونی پیش بندی کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ پیپلزپارٹی کے مخالفین نے ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ تشکیل دیا۔ آٹھ پارٹیوں پر مبنی اتحاد میاں محمد نواز شریف اور غلام مصطفی جتوئی کے زیر قیادت انتخابی اکھاڑے میں اترا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا امیدوار بننے کے خواہش مندوں کا سیلاب امنڈ آیا۔ اسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے 18 ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں۔ اس دور کی اخباری اطلاعات کے مطابق کراچی میں ٹکٹ کے خواہشمندوں کا اتنا رش تھا کہ شہر کے ہوٹلوں میں کمرے کم پڑ گئے۔
قومی اسمبلی کی 207 اور صوبائی اسمبلیوں کی 483 نشستوں کے لیے انتخابات بالترتیب 16 اور 19 نومبر کو ہوئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی 93 نشستوں کے ساتھ سرفہرست تھی۔ آئی جے آئی 55  نشستیں لے سکی۔ ایم کیوایم نے حیرت انگیز طور پر 13 حلقوں میں کامیابی حاصل کرلی۔ 27 آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد اسمبلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔

صدر اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو سے حلف لیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس وقت کے قائم مقام صدر غلام اسحاق خان نے حکومت سازی کے لیے صلاح مشوروں اور پس پردہ یقین دہانیوں میں دو ہفتے لگا دیے۔ مقتدر حلقے اندرونی اور بیرونی معاملات پر ٹھوس یقین دہانیوں کے بغیر انتقال اقتدار کے معاملے پر ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔
حالیہ دنوں میں سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کے انٹرویوز پر مبنی یادداشتوں کی کتاب ’اقتدار کی مجبوریاں‘ میں اسلم بیگ  نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ملاقات اور مطالبات کا تذکرہ کیا ہے۔ 
وہ کہتے ہیں: ’میں نے  نظیر بھٹو سے کہا کہ وہ فوج سے شکایات کی صورت میں آگاہ کریں۔ اس کے علاوہ ضیا الحق کے اہلخانہ کے بارے میں نرمی کا رویہ رکھنے اور غلام اسحاق خان کو صدر منتخب کروانے کے بارے میں بھی میری درخواست کا انہوں (بے نظیر بھٹو) نے مثبت جواب دیا۔‘ 
شجاع نواز کے مطابق اسلم بیگ نے افغان پالیسی، ایٹمی پروگرام اور فوج میں تبادلوں کے حوالے سے بے نظیر بھٹو سے عدم مداخلت کی ضمانت مانگی تھی۔
بے نظیر بھٹو کے لیے مشروط اقتدار کی پیشکش پر پیپلزپارٹی میں دو طرح کی رائے پائی جاتی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ 35 سالہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار میں آنے کے لیے ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ انہیں محدود اور مشترک اقتدار کو نہ کر دینا چاہیے۔ دوسرے نقطۂ نظر کے حامیوں کے خیال میں طویل آمریت کے بعد اقتدار کا موقع ہاتھ سے جانے  دینا سیاسی حکمت عملی اور فوائد کے خلاف تھا۔
بے نظیر بھٹو اپنی خود نوشت ’بے نظیر بھٹو، ڈاٹر آف دی ایسٹ‘ میں اپنی حلف برداری کے لمحات کو تاریخی قرار دیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ان کے مخالفین کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے ۔اس وقت انہیں اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کا چہرہ یاد آرہا تھا۔ بے نظیر بھٹو کے مطابق یہ تقدیر اور تاریخ کی قوتیں تھیں جنہوں نے انہیں وزیراعظم کے منصب تک پہنچایا ورنہ ان کا اپنا انتخاب یہ نہ ہوتا۔ 
35 سال کی عمر میں بےنظیر دنیا کی کم عمر ترین اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ طویل آمریت سے مقابلے کی وجہ سے دنیا بھر میں انہیں سراہا گیا۔ سابق وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے اپنی کتاب Between Dreams and Realities میں اس حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کو مغرب میں بہت سراہا گیا۔ ان کے مطابق اس مثبت تاثر کی وجہ سے ایک سال میں پاکستان کی غیر ملکی امداد 2.6 سے 3.4 ارب ڈالرز تک چلی گئی۔
اس کے برعکس پاکستان اور مسلم دنیا میں ایک مخصوص طبقے نے ان کی مخالفت کی۔ بے نظیر بھٹو اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ایک مخصوص طبقے نے ان کے وزیراعظم بننے پر او آئی سی سے پاکستان کی رکنیت تک معطل  کروانے کی کوشش کی۔ تاہم مسلم دنیا کے روشن خیال مذہبی مفکرین نے پروپیگنڈے کے برعکس ان کے انتخاب پر مثبت رد عمل دیا۔
بےنظیر بھٹو نے اپنے والد کی نیشنلائزیشن کی پالیسی کے برعکس پرائیویٹائزیشن اور ڈی ریگولیشن کی معاشی پالیسی اختیار کی۔ وہ برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے حکومتی ماڈل سے بہت متاثر تھیں۔ برطانیہ کی طرح پاکستان میں بھی ایک نئی مڈل کلاس کے جنم لینے کی خواہشمند تھیں۔

35 سال کی عمر میں بینظیر بھٹو دنیا کی کم عمر ترین اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اقتدار سنبھالتے ہی ان کا واسطہ دو طرح کے مخالفین سے پڑا۔ شکوک و شبہات سے بھرے ہوئے ایوانِ صدر کے مکین اور سیاسی جنگ کو ذاتی کردار کشی کی حد تک لے جانے والے سیاسی مخالفین۔ 
ابتدا میں بے نظیر بھٹو غلام اسحاق خان کے بجائے ملک قاسم کو صدر بنانا چاہتی تھیں۔ شجاع نواز کے مطابق ڈاکٹر شیر افگن نیازی کے گھر ہونے والے اجلاس میں افتخار گیلانی اور شیر افگن نیازی نے غلام اسحاق خان کی پرجوش حمایت کی اور بے نظیر بھٹو کو بھی قائل کر لیا۔
صدارتی الیکشن میں نوابزادہ نصراللہ خان غلام اسحاق خان کے مدمقابل تھے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ایم آر ڈی کی طویل اور صبر آزما تحریک چلائی تھی۔ پیپلزپارٹی نے آمریت سے اپنی بدترین بیزاری کے باوجود ضیا الحق کے سیاسی وارث کو صدر بنوا دیا۔ عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی نے صوبہ سرحد سے تعلق کے باوجود بھی غلام اسحاق خان پر نصراللہ خان کو فوقیت دی۔
بیوروکریسی میں اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے قانونی اور تکنیکی موشگافیوں میں مہارت رکھنے  والے غلام اسحاق خان نے روز اول سے ہی بے نظیر کو انتظامی اور قانونی حربوں سے زچ کرنا شروع کر دیا۔ بے نظیر بھٹو لکھتی ہیں کہ وزیراعظم بننے کے کئی دنوں تک کوئی سرکاری فائل ان کو نہیں بھیجی گئی۔ کیبنٹ سیکریٹری کو کہا گیا کہ تمام فائلیں ایوان صدر بھیجی جائیں۔ 
نو منتخب وزیراعظم کے ساتھ گھاگ صدر کا پہلا اختلاف سیاسی قیدیوں کی رہائی اور عام معافی کے معاملے پر ہوا۔ بے نظیر تمام قیدیوں کی غیر مشروط رہائی چاہتی تھیں جبکہ صدر مملکت نےاس حوالے سے مشروط اور محدود قسم کا حکم نامہ جاری کیا۔ بے نظیر بھٹو اپنی آپ بیتی میں لکھتی ہیں کہ صدر کی طرف سے قانونی جواز کا سہارا لینا ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کی پاکستان واپسی کا راستہ روکنے کے لیے تھا۔ انہوں نے مرتضی  بھٹو کے لیے پاکستانی پاسپورٹ جاری کروا دیا مگر وہ مخصوص قانونی بندشوں کی وجہ سے پاکستان نہ آ سکے۔ بے نظیر بھٹو کے مطابق اگر ان کی پاکستان واپسی ہوجاتی تو پیپلز پارٹی میں آنے والے دنوں میں اختلاف اور انتشار سے بچا جاسکتا تھا۔
مرکز کے ساتھ ساتھ سندھ اور سرحد میں پیپلز پارٹی کی اتحادی صوبائی حکومتیں قائم ہوئی۔ بلوچستان میں دلچسپ سیاسی صورتحال نے جنم لیا۔ ظفراللہ جمالی ایک ووٹ کی برتری سے وزیراعلیٰ بنے۔ صرف 12 دنوں بعد انہوں نے صوبائی  گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ دیا۔ ایک آئینی بحران اور عدالت کے فیصلے کے بعد نواب اکبر بگٹی وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کے خلاف پنجاب کے وزیراعلیٰ نواز شریف سے ہاتھ ملا لیا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کے مخالفین میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ نوازشریف پیش پیش تھے۔ صوبے کی سیاسی اور عددی اہمیت کی وجہ سے انہوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ محاذ آرائی کا راستہ اپنایا۔
سرتاج عزیز کے مطابق  نواز شریف نے پنجاب کے سینیئر افسروں کے بارے میں مرکز کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح وفاقی حکومت نے قومیائے گئے بنکوں کو اتفاق انڈسٹری اور مسلم لیگ کے دیگر رہنماؤں کے کاروباری اداروں کو تجارتی قرضے  دینے سے روک دیا۔ اس کے جواب میں نواز شریف نے بینک آف پنجاب کی بنیاد رکھی۔

ابتدا میں بے نظیر بھٹو غلام اسحاق خان کے بجائے ملک قاسم کو صدر بنانا چاہتی تھیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بے نظیر بھٹو کے مطابق ان کے خاندان، ان کی ذات اور عقائد کے حوالے سے بے بنیاد پراپیگنڈا کیا گیا جس میں ان کے فرانس سے مہنگے دوپٹے کی خریداری کی جھوٹی کہانیاں گھڑ کر انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔
افغانستان سے روسی افواج کے انخلا کے بعد کی پالیسی کے حوالے سے بے نظیر کی حکومت اور طاقتور حلقوں میں شکر رنجی نے جنم لیا۔ افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے بارے میں پالیسی پر دونوں کے نقطۂ نظر اور ترجیحات میں فرق تھا۔
بے نظیر بھٹو اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ کچھ حلقے عبدالرب سیاف کو صدر اور حکمت یار کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے بحثیت وزیراعظم پروفیسر مجددی کو صدر اور عبدالرب سیاف کو وزیراعظم بنانے کے خیال کی حمایت کی۔ بے نظیر بھٹو کے مطابق انہوں نے افغانستان کے پاکستان کے ساتھ مجوزہ کنفیڈریشن کا آئیڈیا بھی مسترد کر دیا تھا۔ ایوان صدر اور مقتدر قوتوں کو احساس ہونے لگا کہ بے نظیر کا انداز حکومت طے شدہ  یقین دہانیوں کے برعکس جا رہا ہے تو انہوں نے اپنے پتے کھیلنے شروع کر دیے۔
ان کا پہلا وار ستمبر 1989 میں ایم کیو ایم کی طرف سے حکومت کی حمایت واپس لینے کے فیصلے کی صورت میں تھا۔ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے واضح اکثریت کے باوجود ایم کیو ایم کو شریک اقتدار کیے رکھا۔ اب کراچی میں امن و امان کے مسائل اٹھ کھڑے ہوئے۔
وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کو غیر مسلح کرنے کے لیے فوج سے مدد طلب کی۔ سرتاج عزیز کے مطابق فوج نے آرٹیکل 245 کی شق 3 کے تحت مکمل اختیارات طلب کیے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس پر ہچکچاہٹ  کا مظاہرہ کیا تو دونوں کے تعلقات میں کھچاؤ آگیا۔
مرزا اسلم بیگ کے مطابق حکومت نے انہیں آرمی چیف کے عہدے سے ہٹا کر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنانے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے شجاع نواز لکھتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو نے جب دفاعی امور کے مشیر جنرل ریٹائرڈ  امتیاز کے ذریعے چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین افتخار سروہی کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تو غلام اسحاق خان نے اسے اپنے اختیارات میں مداخلت قرار دیا۔ صدر نے اس حوالے سے چھپنے والی خبروں کی تردید کے لیے حکومت کو سخت  خط لکھ کر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔
اسی طرح حمید گل کی جگہ ریٹائرڈ جنرل شمس الرحمان کلو  کو ڈی جی آئی ایس آئی بنانے کے فیصلے نے فوج میں تشویش اور اضطراب پیدا کیا۔ شجاع نواز کے نزدیک بے نظیر بھٹو کا یہ فیصلہ سیاسی  ناپختگی اور فوج کے اندرونی میکنزم سے عدم واقفیت پر مبنی تھا۔ اس فیصلے نے مقتدر قوتوں میں ان سے نجات کی سوچ اور پختہ کر دی۔
بے نظیر بھٹو کی حکومت پر سب سے منظم اور مضمر سیاسی اثرات کا حامل حملہ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں کیا گیا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کی جماعتوں نے ایم کیو ایم، جے ڈبلیو پی اور اے این پی کو ساتھ ملا کر کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز کے نام سے ایک اور اتحاد تشکیل دیا۔ جس نے 24 اکتوبر 1989 کو 98 ارکان کے دستخطوں  سے تحریک عدم اعتماد جمع کروائی۔
حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی سے سیاسی گرما گرمی پیدا ہو گئی۔دونوں اطراف اپنے اراکین کی وفاداریاں مستحکم کرنے کی دوڑ میں لگ گئے۔ اپوزیشن نے اپنے ارکان کی حفاظت کے لیے صدر سے درخواست کی۔جب کہ حکومت نے اپنے ایک سو ارکان کو جوڑ توڑ سے بچانے کے لیے مینگورہ کے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔ 
یکم نومبر کو تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری میں تحریک کے حق میں 107 اور مخالفت میں 124 ووٹ پڑے۔ ولی خان سمیت پانچ ارکان غیر حاضر رہے۔ حزب اختلاف کے چھ جبکہ حکومت کے تین ارکان نے وفاداریاں تبدیل کی۔ 

1988 میں بے نظیر بھٹو سیاسی مہم کے دوران جلسے سے خطاب کرتے ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی اور ادارہ جاتی کشیدگی سے نظام حکومت کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔ پریس کے ایک حصے میں مارشل لا کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔ سرتاج عزیز 14 جون 1990 کو صدر غلام اسحاق خان سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کے صدر نے ملاقات میں سول سسٹم کے بریک ڈاؤن کے تاثر  کا تفصیل سے تذکرہ کیا۔ ان کے مطابق وفاق کے اہم فیصلہ سازی کے امور میں پنجاب اور بلوچستان کی عدم شرکت نے سیاسی اور انتظامی بحران کی  کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔
اس دور میں تحریک عدم اعتماد کے لیے اسامہ بن لادن کی مبینہ مالی امداد کا تذکرہ بھی ہونے لگا۔ بے نظیر بھٹو اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ’میری حکومت کے پہلے مہینے سے ہی کچھ عناصر پیپلزپارٹی کے حکومتی اراکین کو ورغلانے لگے تھے۔ وہ انہیں تاثر دینے کی کوشش کرتے کہ پاکستانی فوج اور امریکہ۔ کوئی بھی بے نظیر کو پسند نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ ان کے شوہر آصف علی زرداری بھی سیاسی طور پر ان سے مطمئن نہیں ہیں۔‘ 
نواز شریف کو ان کے خلاف پنجاب میں کھڑا کیا گیا۔ جنہوں نے ان کے سیاسی اقتدار کو چیلنج کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو صرف اسلام آباد تک محدود کرنے کی کوشش کی۔ 
سردار غلام اسحاق  خان نے منتخب حکومت کے خاتمے کا ذہن بنا لیا۔ انہوں نے اپنے مشیروں سے اس کے قانونی اور سیاسی مضمرات  پر صلاح مشورے شروع کر دیے۔ ان کے قریبی ساتھیوں میں شریف الدین پیرزادہ، عزیز منشی، رفیع رضا اور بریگیڈیئر ذوالفقار شامل تھے ۔صدر نے اپنے ماضی کے دوست اور معروف بیوروکریٹ کو تعلقات میں ناراضگی کے باوجود اپنی مدد کے لیے طلب کرلیا۔ روئیداد خان نے اپنی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے لیے درپردہ کوششوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے مطابق جولائی 1990 کے اواخر تک صاف لگ رہا تھا کہ حکومت کی رخصتی کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ اس وقت کے آرمی چیف سے بھی رضامندی لے لی گئی تھی۔ 
اس حوالے سے جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ صدر کی طرف سے انہیں وزیر اعظم کی پالیسیوں کے بارے میں الزامات پر مبنی دستاویزات موصول ہوئی۔ انہوں نے کور کمانڈرز کانفرنس میں اس پر رائے  لی۔ اسلم بیگ کے مطابق وہاں کہا گیا کہ صدر کو احتیاط  کی ضرورت ہے۔انہیں چاہیے کہ وہ وزیراعظم کو غلطیاں درست کرنے کا موقع دیں۔ 
دوسری طرف بے نظیر بھٹو تک یہ خبر پہنچی تو انھوں نے اپنے خصوصی معاون ہیپی مین والا کو صدر کے پاس احوال دریافت کرنے بھیجا ۔ان کا جواب تھا کہ میں آئین کے خلاف کسی اقدام کا ارادہ نہیں رکھتا۔
بے نظیر بھٹو نے غلام اسحاق خان کے ساتھ ٹیلی فون پر ان افواہوں  کی بابت استفسار کیا تو صدر نے تصدیق کی کہ وہ 58 ٹو بی کے استعمال کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وزیراعظم کی طرف سے وجوہات کے بارے میں سوال کے جواب میں صدر نے انہیں شام چھ بجے قوم سے خطاب سننے کا مشورہ دیا۔
چھ اگست کو پیپلز پارٹی کی حکومت برطرف کردی گئی۔ روئیداد خان کے مطابق یہ آپریشن خفیہ رکھ کر دھوکہ  دینے کی کوشش کی گئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمیں خدشہ تھا کہ یکم اور چھ اگست  کے درمیان بے نظیربھٹو جوابی کارروائی سے ہمارے ارادے ناکام نہ کر دیں۔ جب فیصلے کی گھڑی آئی تو ان جانے  وسوسوں میں پھنسے ہم سوچ رہے تھے کہ وزیر اعظم کی طرف سے کوئی پیش قدمی کیوں نہیں ہو رہی۔
صدر نے حکومت پر بدعنوانی، بدانتظامی، امن و امان کے مسائل، سیاسی محاذ آرائی، اقرباپروری، عدالتوں اور سول سروسز کے غلط استعمال کے الزامات لگائے۔

بے نظیر بھٹو کے مطابق یہ تقدیر اور تاریخ کی قوتیں تھیں جنہوں نے انہیں وزیراعظم کے منصب تک پہنچایا ورنہ یہ ان کا انتخاب نہ ہوتا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتیں بھی برطرف کر دی گئی۔ اس اقدام کے خلاف سندھ، لاہور اور پشاور ہائی کورٹس میں درخواستیں دائر کر دی گئیں۔ لاہور اور سندھ ہائی کورٹ نے اسمبلی کی برطرفی کو درست جبکہ پشاور ہائی کورٹ نے اس کے برعکس فیصلہ دیا۔ جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا۔
حکومت کی رخصتی کے بعد غلام مصطفی جتوئی کی سربراہی میں نگران حکومت تشکیل پائی۔ یہ ایک تلخ سیاسی حقیقت ہے کہ نگران کابینہ میں ماضی میں پیپلز پارٹی سے وابستہ رہنے والے اور بے نظیر بھٹو کے بدتر سیاسی مخالفین کو شامل کیا گیا۔ وزیراعظم جتوئی کے علاوہ غلام مصطفیٰ کھر، کمال اظفر اور رفیع رضا شامل تھے۔ نگران کابینہ کا حصہ رہنے والے سرتاج عزیز اس کابینہ کی غیرجانبداری پر سوالات اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس سیاسی پاکیزگی کی ان کو توقع تھی یہ کابینہ اس سے کوسوں دور تھی۔
11 اگست 1990 کو احتساب کے قلمدان کا حلف اٹھانے والے روئیداد خان نے بے نظیر بھٹو کے خلاف بنائے جانے والے ریفرنسز کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق صدر کے سیکریٹری فضل الرحمان کی طرف سے بھیجی گئی دستاویزات کی جانچ پرکھ کے بعد نگران وزیراعظم نے بینظیر بھٹو کے خلاف چھ ریفرنسز کی منظوری دی۔ انہیں خصوصی عدالت کو بھیجا گیا ۔روئیداد خان لکھتے ہیں کہ صدر کو اور ہمیں بتایا گیا تھا کہ سمری ٹرائل کے نتیجے میں پوری کاروائی دو ماہ میں مکمل ہو جائے گی۔ ہر الزام کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں اس لئے الزامات ثابت ہو جائیں گے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں  نے یہ نہیں بتایا کہ صدر کو اور انہیں یقین دہانی کس نے کروائی تھی ؟ آگے چل کر من پسند  فیصلے نہ ملنے پر وہ عدالتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کے دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد وہ ان تمام الزامات سے بری ہو گئی تھیں۔
چھ اگست کے بعد احتساب اور کرپشن کے شور و غوغا میں اگلے انتخابات منعقد ہوئے ۔بے نظیر بھٹو کے مخالفین کی جارحانہ مہم میں ان کی ذاتی اور سیاسی زندگی کو نشانہ بنایا گیا۔ حکومتی اور انتظامی مشینری نے مل کر ایسا عوامی موڈ تشکیل دیا جس نے پیپلزپارٹی کو ناکامی سے دوچار کردیا۔ بے نظیر بھٹو کے سب سے بڑے سیاسی مخالف نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کی مسند سنبھالی۔
بے نظیر بھٹو اپوزیشن لیڈر کے طور پر اپنے دونوں سیاسی حریفوں صدر اور وزیراعظم سے برسرِ پیکار رہیں۔ اس حوالے سے صدر غلام اسحاق خان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے موقع پر بے نظیر کی طرف سے ’گو بابا گو‘ کے احتجاجی نعروں  نے صدر کو بہت بدمزہ کیا۔ روئیداد خان کے مطابق جب بے نظیر بھٹو غلام اسحاق خان پر برس رہی تھیں تو اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف خاموشی سے بیٹھے رہے اور صدر کی مدد کو نہ آئے۔ 

شیئر: