Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لڑائی میں شدت، طالبان کے مخالف جنرل دوستم بھی افغانستان پہنچ گئے

جنرل دوستم 2014 کے انتخابات میں صدر اشرف غںی کے اتحادی تھے (فوٹو: اے ایف پی)
افغان وار لارڈ جنرل عبدالرشید دوستم ترکی میں کئی ماہ کے قیام کے بعد واپس افغانستان پہنچ گئے ہیں۔
جمعرات کو جنرل دوستم کے ترجمان احسان نیرو نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’بدھ کی رات جنرل دوستم کابل پہنچے اور صوبہ جوزجان کے دارالحکومت شبرغان میں سکیورٹی کی صورت حال پر سینیئر عہدیداروں سے ملاقات کی۔‘
سابق نائب صدر جنرل دوستم کئی ماہ سے ترکی میں تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ وہاں زیر علاج تھے۔
احسان نیرو نے مزید بتایا کہ ’وہ صدر اشرف غنی سے ملاقات کے منتظر ہیں۔‘
دوستم نے افغانستان کے شمال میں سب سے بڑی ملیشیا کی نگرانی کی ہے۔ وہ نوے کی دہائی میں طالبان کے خلاف لڑائی میں خوف کی علامت کے طور پر مشہور تھے۔
ان پر الزام تھا کہ ان کی ملیشیا نے ہزاروں طالبان جنگی قیدیوں کا قتل عام کیا۔
ان پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا بھی الزام ہے۔
مئی کے آغاز سے ہی افغانستان میں لڑائی میں شدت آئی ہے۔ طالبان نے پہلے ہی دیہی علاقوں کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ہے۔
یورپی یونین نے جمعرات کو افغانستان میں طالبان کے حالیہ حملوں کی مذمت کی ہے اور ’فوری، جامع اور مستقل جنگ بندی‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

دوستم نے افغانستان کے شمال میں سب سے بڑی ملیشیا کی نگرانی کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ایک بیان میں یورپی یونین کی خارجہ امور کی پالیسی کے سربراہ اوسپ بورل اور امداد اور بحران مینجمنٹ کے یورپی کمشنر جینز لینارسس نے طالبان پر مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے وعدے کو توڑنے کا الزام لگایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’بے حسی پر مبنی یہ تشدد افغان شہریوں کو بے پناہ تکالیف پہنچا رہا ہے اور ملک میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو تحفظ اور پناہ کی تلاش میں ہیں۔‘
افغان اور امریکی افواج نے طالبان کے خلاف فضائی حملوں میں اضافہ کیا ہے۔
بدھ کو طالبان نے اعلیٰ حکومتی ٰ عہدیداروں کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔
طالبان کی دھمکی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب افغان فوج نے جنوبی شہر لشکر گاہ میں طالبان کے خلاف جوابی حملے کیے ہیں۔

شیئر: