Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ملک عبیداللہ کی ہلاکت، شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان

ملک عبیداللہ کاسی کو 26 جون کو نامعلوم افراد نے اسلحہ کے زور پر اغوا کیا تھا (فوٹو: اے این پی ٹوئٹر)
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ڈیڑھ ماہ قبل اغوا ہونے والے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ملک عبیداللہ کاسی کی تشدد زدہ لاش ملی ہے۔ واقعہ کے خلاف عوامی نیشنل پارٹی نے کوئٹہ میں پشین میں احتجاجی مظاہرے کیے، جبکہ جمعہ کو صوبے بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا بھی اعلان کیا ہے۔
ملک عبیداللہ کاسی کو 26 جون کو کوئٹہ کے علاقے کچلاک میں کلی کتیر میں اپنے گھر کے قریب سے نامعلوم افراد نے اسلحہ کے زور پر اغوا کیا تھا۔ اہلخانہ کا کہنا ہے کہ اغوا کاروں نے  رہائی کے بدلے 15 لاکھ ڈالر تاوان مانگا تھا۔
اسسٹنٹ کمشنر پشین حضرت ولی کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ملک عبیداللہ کاسی کی لاش جمعرات کی صبح کوئٹہ سے متصل پشین کے علاقے سرانان میں مہاجر کیمپ کے عقب میں سڑ ک کے قریب سے ملی۔ لاش سول ہسپتال پشین میں ابتدائی معائنے کے بعد مزید قانونی چارہ جوئی کے لیے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) کے حوالے کردی گئی۔
سی ٹی ڈی پولیس نے لاش پوسٹ مارٹم کی غرض سے سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کی۔
سول ہسپتال کے اسسٹنٹ پولیس سرجن عطاء اللہ نے بتایا کہ ’ملک عبیداللہ کاسی کی موت کی وجہ بہیمانہ تشدد ہے۔ مقتول کے پورے جسم پر شدید تشدد کے نشانات پائے گئے ہیں۔ مقتول کے ہاتھ میں ہتھکڑی تھی، جبکہ دونوں پاؤں رسی سے باندھے گئے تھے۔ لاش چوبیس گھنٹے پرانی ہے۔‘
ملک عبیداللہ کاسی عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء اور پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن تھے۔ ان کا تعلق کوئٹہ سے تقریباً 30 کلومیٹر دور کچلاک سے تھا۔
وہ وسیع رقبے پر پھیلے قیمتی آبائی جائیدادوں کے مالک تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملک عبیداللہ کاسی کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا تھا۔
مقتول کے ماموں یوسف خان کاکڑ نے بتایا کہ ’اغوا کے تین دن بعد ملک عبیداللہ کاسی کے بھائی کو ایک ٹیلیفون کال آئی تھی۔ اغوا کاروں نے رہائی کے بدلے 15 لاکھ ڈالر تاوان مانگا جس پر ان کے بھائی نے اغوا کاروں سے کہا کہ ہم بات کرنے کے لیے تیار ہیں مگر اس ایک منٹ کی کال کے بعد اغوا کاروں نے کبھی دوبارہ رابطہ نہیں کیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ قتل سے قبل ہمیں بتایا گیا تھا کہ پولیس نے اغوا کے شبے میں کچھ لوگ گرفتار بھی کیے ہیں مگر وہ کون ہیں اور ان کا کیا کردار تھا اس بابت خاندان کو کوئی معلومات نہیں دی گئیں۔
کوئٹہ پولیس کے ایس ایس پی اسد خان ناصر کے مطابق اغوا کے اس واقعہ کی تفتیش سی ٹی ڈی پولیس کررہی تھی۔ اب قتل کی تحقیقات بھی سی ٹی ڈی ہی کرے گی۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور سی ٹی ڈی حکام سے کوشش کے باوجود کوئی رابطہ نہیں ہوسکا۔ تاہم کوئٹہ پولیس کے ایک سینیئر آفیسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں شبہ ہے کہ اغوا کاروں نے اپنے ایک ساتھی کی گرفتاری کے رد عمل میں مغوی کو قتل کیا ہے۔‘
بلوچستان میں یہ گزشتہ چھ ماہ کےدوران قتل ہونے والے عوامی نیشنل پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے دوسرے رکن ہیں۔ اس سے قبل فروری میں اے این پی کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور صوبائی سیکریٹری اطلاعات اسد خان اچکزئی کی تشدد زدہ لاش گمشدگی کے پانچ ماہ بعد کوئٹہ سے ملی تھی۔

پولیس کے مطابق اسد خان اچکزئی کو کار چھیننے کی واردات کے دوران مزاحمت پر قتل کیا گیا (فوٹو: غالب نہاد)

پولیس کے مطابق اسد خان اچکزئی کو کار چھیننے کی واردات کے دوران مزاحمت پر قتل کیا گیا۔ پانچ ماہ بعد قاتل کو گرفتار کیا گیا تو وہ لیویز فورس کا اہلکار نکلا جس کی نشاندہی پر لاش کوئٹہ کے نواح میں ایک کنویں سے برآمد کی گئی۔
ملک عبیداللہ کاسی کے اغوا اور قتل کے خلاف پشین میں سول ہسپتال کے سامنے اورکوئٹہ میں منان چوک اور عالمو چوک پر اے این پی کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے کیے۔
مظاہرین نے ٹائر جلاکر سڑک ٹریفک کے لیے بند کردی۔ اے این پی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے اے این پی کے رہنماؤں کے اغوا اور قتل میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے اور سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان نے تین روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے جمعہ چھ اگست کو کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں کی کال بھی دی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کی چار جماعتی مخلوط حکومت کا حصہ ہے۔ اے این پی کے دو ارکان اسمبلی بلوچستان کابینہ کا حصہ ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اور پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک عبیداللہ کاسی کا قتل بڑا دردناک واقعہ ہے۔
اصغر خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ ملک عبیداللہ کاسی سیاسی کارکن اور قبائلی معتبر تھے۔ انہوں نے پوری زندگی شرافت سے گزاری ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سچ ہے کہ مقتول کے اہلخانہ سے 15 لاکھ ڈالر تاوان مانگا گیا تھا مگر لوگ حق حلال طریقے سے پیسہ اس لیے تو نہیں کماتے کہ ڈاکوؤں اور اغوا کاروں کو دیں اور نہ دینے کی صورت میں انہیں موت کی سزا دی جائے۔
’اغوا کاروں نے ان کے ساتھ انتہائی وحشیانہ سلوک کیا، ہم حیران ہیں کہ انسان اتنی درندگی کا بھی مظاہرہ کرسکتا ہے۔‘

اے این پی کے رہنماء نے کہا کہ ’اس سال یہ ہماری پارٹی کے دوسرے رہنما ہیں جنہیں اغوا اور قتل کیا گیا۔‘ (فوٹو اردو نیوز)

اے این پی کے رہنماء نے کہا کہ ’اس سال یہ ہماری پارٹی کے دوسرے رہنما ہیں جنہیں اغوا اور قتل کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اسد خان اچکزئی کے کیس میں بتایا گیا کہ واقعہ کے مرکزی ملزم کو گرفتار کیا گیا اور گاڑی بھی برآمد کی گئی،  لیکن ہمارے لیے یہ کوئی اطمینان کی بات نہیں۔‘
'ہم اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں اس کے جواب میں جتنے بھی ڈاکو، قاتل اور دہشتگردوں کو تختہ دار پر لٹکایا جائے اس سے متاثرہ خاندانوں کے دکھوں کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ مجرموں کو جرم کے بعد پکڑنے اور سزائیں دینے سے نہیں بلکہ جرم ہونے سے پہلے گرفتار کرنے سے فرق پڑے گا اور ایسے واقعات کا تدارک ہوسکتا ہے۔'
اصغر خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ ’ہر شہری کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے۔ ایسے واقعات کو ہم ریاست ، اداروں اور حکومت کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکامی سمجھتے ہیں۔ یہ بات ناکامی سے بھی آگے بڑھ گئی ہے۔ ہم اس کے نتائج تھکا دینے والے اور پریشان کن دیکھ رہے ہیں۔‘
 

شیئر: