Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کا آٹھویں صوبائی دارالحکومت پر قبضہ، لوگ گھر چھوڑنے پر مجبور

افغان طالبان نے ملک کے آٹھویں صوبائی دارالحکومت پلخمری پر قبضہ کر لیا ہے۔ پلخمری بغلان صوبے کا دارالحکومت ہے۔ یہ صوبہ کابل کے شمال میں واقع ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بغلان کے صوبائی کونسل کے ایک رکن معمور احمد زئی اور ایک آرمی افسر نے قبضے کی تصدیق کی ہے جبکہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی پلخمری پر قبضے کی تصدیق کی ہے۔ 
اس سے قبل منگل کو ہی طالبان صوبائی دارالحکومت فراہ پر قابض ہوئے۔ جمعے سے اب تک طالبان آٹھ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ 
دارالحکومت فراہ پر قبضے کی تصدیق طالبان اور مقامی کونسل ممبر نے کی۔
فراہ کے صوبائی کونسل کی رکن شہلا ابوبر نے بتایا کہ ’اس سہ پہر سکیورٹی فورسز کے ساتھ مختصر لڑائی کے بعد طالبان فراہ شہر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے گورنر کے دفتر اور پولیس ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کر لیا ہے۔‘
سات صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہونے کے بعد افغان طالبان شمالی افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔

ہزاروں شہری بے گھر ہوئے ہیں

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی کی وجہ سے ہزاروں شہری اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور انہوں نے کابل سمیت محفوظ مقامات کا رخ کیا ہے۔
طالبان جنگجوؤں کی نظریں اب شمال کے سب سے بڑے شہر مزار شریف پر ہیں، جس پر قبضہ ایک ایسے خطے میں حکومتی کنٹرول کے مکمل خاتمے کا اشارہ دے گا، جو روایتی طور پر طالبان مخالف رہا ہے۔
حکومتی فورسز طالبان کے خلاف قندھار اور ہلمند میں بھی برسرپیکار ہیں۔
افغان شہری اپنے خاندانوں کے ساتھ محفوظ مقامات کا رخ کر رہے ہیں۔ اپنے خاندان سمیت شبرغان سے آنے والی رحیمہ بھی کابل میں سینکڑوں خاندانوں کے ساتھ کابل کے ایک پارک میں خیمہ زن ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’اگر کسی خاندان میں کوئی نوجوان لڑکی یا بیوہ موجود ہو تو وہ اس کو زبردستی لے جاتے ہیں۔ ہم اپنی عزت کی خاطر اپنا شہر چھوڑ کر آئے ہیں۔‘
شمالی شہر قندوز کے ایک دکاندار حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ لوگ اپنی دکانیں اور کاروبار کھول رہے ہیں لیکن آپ ان کی آنکھوں میں خوف دیکھ سکتے ہیں۔‘

دوسرے شہروں سے کابل آنے والی افغان خواتین میں کھانے کا سامان تقسیم کیا جا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

قندوز کے دیگر رہائشی جو ایئرپورٹ کے قریب رہتے ہیں، کا کہنا ہے کئی دنوں سے حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔
فرید جنہوں نے اپنا پورا نام نہیں بتایا، کا کہنا تھا کہ ’طالبان لوگوں کے گھروں میں چھپ رہے ہیں اور حکومتی فورسز ان پر بمباری کر رہی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’میں اپنے گھر کی کھڑکی سے خواتین، بچوں اور مردوں کو علاقہ چھوڑتے ہوئے دیکھ سکتا ہوں۔ ان میں کچھ ننگے پاؤں ہیں، اور کچھ روتے ہوئے بچوں کو اپنے ساتھ کھینچ رہے ہیں۔‘

مختلف شہروں میں افغان شہری بھی حکومتی فورسز کا ساتھ دے رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’طالبان کی بڑھتی جارحیت کے نتیجے میں شہری ہلاک ہو رہے ہیں اور مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش ہے۔ مذاکرات کے ذریعے امن ہی جنگ ختم کرنے کا واحد راستہ ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ ’امریکہ کو صورت حال پر گہری تشویش ہے لیکن افغان سکیورٹی فورسز کے پاس شدت پسند گروپ سے لڑنے کی اہلیت ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ’اگر افغان سکیورٹی فورسز اس لڑائی میں اپنی اہلیت نہ دکھا سکیں تو امریکی فوج کیا کر سکتی ہے،‘ جس پر ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ زیادہ نہیں۔‘

شیئر: