Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کا اپنے تمام شہریوں کو فوری طور پر افغانستان چھوڑنے کا حکم

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق مذاکرات میں حکومتی نمائندے اور کثیرالجہتی ادارے تشدد میں کمی اور جنگ بندی پر زور دیں گے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا نے افغانستان میں موجود اپنے شہریوں کو فوری طور پر افغانستان چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں انڈیا کے سفارت خانے سے ٹویٹ کے ذریعے جاری کی گئی ٹریول ایڈوائزری کے مطابق ’افغانستان کے مختلف علاقوں میں تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے اور کمرشل پروازویں بند ہو رہی ہیں۔ تمام انڈین شہری پروازیں بند ہونے سے پہلے سفر کا انتظام کریں۔‘
اس سے قبل انڈیا نے کہ اتھا کہ وہ افغانستان میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر مزار شریف سے اپنے شہریوں کو واپس لانے کے لیے آج ایک خصوصی پرواز روانہ کر رہا ہے۔
سکیورٹی ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ ’افغانستان میں کام کرنے والی انڈین کمپنیاں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ فلائٹس بند ہونے سے پہلے فوری طور اپنے انڈین ملازمین کو کام سے ہٹا دیں۔‘
مزید کہا گیا کہ ’افغانی یا غیر ملکی کمپنیوں میں کام کرنے والے انڈین شہری فوری طور پر اپنے مالکان کو انڈیا کے سفر کے لیے سہولت دینے کا کہیں۔ وہ انڈین سفارت خانے سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔‘
افغانستان میں کام کرنے والے میڈیا کے افراد کو بھی سفارت خانے سے بریفنگ لینے کا کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تمام انڈین شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ای میل کے ذریعے یا کابل میں انڈین سفارتخانے کی ویب سائٹ پر خود کو رجسٹر کروائیں۔
منگل کو افغانستان کے شہر مزار شریف میں انڈین قونصل خانے کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’مزار شریف سے دہلی کے لیے ایک خصوصی پرواز روانہ ہو رہی ہے۔ مزار شریف میں یا اس کے اطراف میں موجود انڈین شہریوں سے درخواست ہے کہ آج شام روانہ ہونے والی خصوصی پرواز کے ذریعے انڈیا واپس آ جائیں۔‘
دوسری جانب امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ افغان سکیورٹی فورسز پر منحصر ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے چھٹے صوبائی دارالحکومت پر قبضے کے بعد ملک کا دفاع کریں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ کا فوجی مشن افغانستان میں 31 اگست کو ختم ہو جائے گا، افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا اور وہ امریکہ کی ایک اور نسل کو 20 سالہ جنگ کے لیے مختص نہیں کریں گے۔
پیر کو محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد قطر کے لیے روانہ ہو گئے ہیں جہاں وہ طالبان پر زور دیں گے کہ وہ اپنی جارحیت ختم کریں اور سیاسی حل کے لیے بات چیت کریں۔‘
تین روزہ مذاکرات میں حکومتی نمائندے اور کثیرالجہتی ادارے تشدد میں کمی، جنگ بندی اور طاقت کے زور پر حکومت قبول نہ کروانے پر زور دیں گے۔‘
طالبان نے پیر کو افغانستان کے چھٹے صوبائی دارالحکومت ایبک پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
ایبک میں قانون ساز ضیاالدین ضیا نے بتایا کہ ’اس وقت طالبان پولیس ہیڈ کوارٹرز اور کمپاؤنڈز پر قبضے کے لیے افغان فورسز سے لڑ رہے ہیں۔ دارالحکومت کے بہت سے علاقے طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں۔‘

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز کے پاس شدت پسند گروپ سے لڑنے کی اہلیت ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ امریکہ کو صورتحال پر گہری تشویش ہے لیکن افغان سکیورٹی فورسز کے پاس شدت پسند گروپ سے لڑنے کی اہلیت ہے۔.
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر افغان سکیورٹی فورسز اس لڑائی میں اپنی اہلیت نہ دکھا سکیں تو امریکی فوج کیا کر سکتی ہے، کربی نے جواب دیا کہ ’زیادہ کچھ نہیں۔‘
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’طالبان کی بڑھتی جارحیت جس کے نتیجے میں شہری ہلاک ہو رہے ہیں اور مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش ہے۔ مذاکرات کے ذریعے امن ہی جنگ ختم کرنے کا واحد راستہ ہے۔‘
افغانستان میں طویل عرصے سے جاری کشیدگی میں رواں سال مئی میں اس وقت اضافہ دیکھنے میں آیا جب امریکی قیادت میں فوجی اتحاد نے ملک سے انخلا کے آخری مرحلے کا آغاز کیا جو رواں ماہ کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ 

شیئر: