Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

داسو حملہ خودکش تھا، افغان سرزمین استعمال ہوئی: شاہ محمود قریشی

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ’داسو حملہ خودکش دھماکہ تھا اور اس میں افغانستان کی سرزمین استعمال کی گئی۔‘
جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’حملے میں جو گاڑی استعمال ہوئی وہ پاکستان سمگل کی گئی۔‘
’داسو حملہ ایک بلائنڈ کیس تھا تاہم اداروں کی تحقیقات کے باعث کچھ حقائق سامنے آئے ہیں۔‘
ان کے مطابق واقعے کی تحقیقات کے لیے 1400 کلومیٹر کے راستے میں 36 سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کی گئی۔‘
شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ’جس جگہ یہ واقعہ رونما ہوا وہاں سے تحقیقاتی ٹیم کو بارودی مواد لے کر جانے والی گاڑی کے ڈرائیور کا انگوٹھا اور انگلی کے ساتھ ساتھ جسم کے اعضا ملے ہیں۔‘
 ’ان اعضا اور وہاں سے ملنے والی دیگر اشیا کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔
’تحقیق کے مطابق اس واقعے کے لیے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کیا گیا، اس کی منصوبہ بندی اور دیگر تانے بانے افغانستان کی خفیہ ایجنسی ’این ڈی ایس‘ اور انڈین خفیہ ایجنسی ’را‘ کے گٹھ جوڑ سے ملتے ہیں۔‘
پاکستانی وزیر خارجہ کے مطابق ’ملنے والے موبائل کے ڈیٹا کا تجزیے کرنے کے بعد ہم اس نتیجے میں پر پہنچے کہ یہ ایک بلائنڈ کیس تھا اور اسے حل کرنا آسان دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن ہمارے اداروں نے یہ پیچیدہ کام کامیابی سے مکمل کیا۔
’انہوں نے یہ حرکت کیوں کی اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں چین کی جو سرمایہ کاری ہو رہی ہے وہ انہیں ہضم نہیں ہو رہی یا وہ اس سے خائف ہیں۔‘
وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ان کے عزائم جو بھی ہوں، وہ جو چاہتے تھے وہ حاصل نہ کر پائے۔‘
’اس واقعے کے بعد پاکستان اور چین کی جانب سے ایک نئے عزم کا اظہار سامنے آیا کہ ہم نے مل کر اس بزدلانہ حرکت کا مقابلہ کرنا ہے۔‘
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’میرے دورہ چین کے دوران بھی یہ ایشو زیربحث آیا جس کا نچوڑ یہ ہے کہ جتنی تحقیقات ہوئیں اس سے چین مطمئن ہے، اور ہم نے مل کر اس واقعے کی مذمت کی۔‘
’ہم نے اس عزم کو دہرایا کہ ایسے واقعات ہمارے حوصلوں کو پست نہیں کرسکتے، بلکہ اس آزمائش کی گھڑی میں ہمارے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے، اس واقعے سے مزید مضبوط ہو کر نکلیں گے۔‘

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ‘داسو واقعہ انڈین اور افغان خفیہ ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں ںے کہا کہ ’تحقیقات کو اس حد تک لے کر جائیں گے جنہوں نے یہ حرکت کی ہے انہیں نہ صرف بے نقاب کیا جائے بلکہ قرار واقعی سزا دی جائے۔‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’واقعے کے بعد چین کی جانب سے کہا گیا کہ وہ تحقیقات کے لیے اپنی ٹیم بھیجنا چاہتا ہے جسے ہم نے خوش آمدید کہا۔‘
’ان کی ٹیم کے سوالات کے جوابات دیے گئے اور اسے جائے وقوعہ کا دورہ کرایا گیا، اور تمام معلومات ان کی ٹیم کے ساتھ شیئر کی گئیں۔‘
ان کے مطابق ’یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ان لوگوں کا پہلا ہدف داسو منصوبہ نہیں تھا بلکہ ان کا بنیادی ٹارگٹ دیامیر بھاشا منصوبہ تھا۔‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان اور چین نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارے سی پیک کے جتنے منصوبے ہیں وہ نہ صرف جاری رہیں گے بلکہ مکمل بھی ہوں گے۔‘

وزیر خارجہ کے مطابق ’پاکستان اور چین نے سی پیک سمیت تمام منصوبوں کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی کی شناخت ہوگئی ہے: ڈی آئی جی سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا
اس موقع پر محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) خیبرپختونخوا کے ڈی آئی جی جاوید اقبال نے بتایا کہ ’حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی کی شناخت بھی ہو گئی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’گاڑی کے ٹکڑوں اور انجن سے پتا چلا کہ واقعے میں ہونڈا اکارڈ گاڑی استعمال ہوئی جس کو پاکستان میں ہونڈا گاڑیاں بنانے والی کمپنی سے بھی چیک کروایا گیا۔‘
ڈی آئی جی نے سکرین پر گاڑی کی تصویر دکھاتے ہوئے بتایا کہ ’اس پر ایک کار بارگین سینٹر کا سٹکر لگا تھا جو سوات کا تھا، اس کے مالک کو شامل تفتیش کیا گیا، جس سے پتا چلا کہ وہ گاڑی نومبر 2020 میں اس کے پاس آئی اور اس نے آگے چمن میں ایک ڈیلر کو دے دی۔‘
’اس کے بعد جولائی میں ہینڈلرز نے گاڑی حملہ آوروں کو دی۔

ڈی آئی جی نے بتایا کہ ’اس حملے کے بعد تحقیقات کے لیے 90 افراد کو شامل تفتیش کیا گیا تاہم وہ سب کلیئر ہوگئے‘ (فائل فوٹو: داسو پروجیکٹ فیس بک پیچ)

بقول ان کے طارق نامی شخص جس کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی سے ہے اور افغانستان میں رہتا ہے، وہ اس واقعے کے لیے افغانستان سے آیا۔
انہوں نے کہا کہ ’حملہ آور کا نام خالد عرف شیخ تھا اور وہ پاکستانی شہری نہیں تھا۔‘
جاوید اقبال نے بتایا کہ ’خودکش کو گاڑی سمیت جائے وقوعہ تک لے جانے کا کام طارق نے کیا اور حملے کے بعد وہ واپس فرار ہو گیا۔‘
انہوں کے مطابق ’پاکستان میں حملے کے حوالے سے جتنی سہولت کاری ہوئی وہ تمام سامنے آچکی ہے اور اس حوالے سے گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔‘
ڈی آئی جی جاوید اقبال نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’14 جولائی کو سات بج کر دس منٹ پر یہ واقعہ ہوا، جس جگہ سے شواہد اکٹھے کیے گئے اور ان کو جانچا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس حملے کے بعد تحقیقات کے لیے 90 افراد کو شامل تفتیش کیا گیا تاہم وہ سب کلیئر ہوگئے۔‘

شیئر: