Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اربوں ڈالرکے امریکی ہتھیار طالبان کے ہاتھ، ’افغان فوج ریت کی دیوار ثابت ہوئی‘

ڈو لیوٹ نے کہا کہ ’اخلاقی پہلو مالی پہلو پر حاوی ہوتا ہے (فوٹو اے ایف پی)
امریکہ نے افغانستان میں 83 ارب ڈالر خرچ کیے لیکن افغان سکیورٹی فورسز طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئیں اور بعض جگہوں پر تو انہوں نے مزاحمت میں ایک گولی بھی نہیں چلائی۔
امریکہ نے جتنی بھی رقم خرچ کی اب اس کا فائدہ طالبان اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اقتدار پر قبضہ کیا بلکہ امریکہ کی طرف سے اسلحہ و بارود اور ہیلی کاپٹروں سمیت دیگر فوجی سازو سامان بھی ہتھیا لیا۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق طالبان نے جدید ملٹری ساز و سامان اس وقت حاصل کیا جب انہوں نے افغان سکیورٹی فورسز پر چڑھائی کی اور وہ اپنے اضلاع کا دفاع کرنے میں ناکام رہیں۔
امریکی محکمہ دفاع کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پیر کو تصدیق کی کہ طالبان نے امریکہ کی طرف سے سپلائی کیے گئے اسلحے پر قبضہ کر لیا ہے۔
امریکہ کی طرف سے ایک ناکام افغان آرمی اور پولیس کھڑی کرنے کی کوشش کا فوجی  تبصرہ نگار کئی برس تک مطالعہ کریں گے۔
افغان فورسز جدید ہتھیاروں کے باوجود کھوکھلی ثابت ہوئیں اور ان میں لڑائی کے جذبے کی بھی کمی رہی۔
پیر کو امریکی محمکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ ’دولت سے ارادہ نہیں خریدا جا سکتا۔ آپ قیادت نہیں خرید سکتے۔‘
جارج ڈبلیو بش اور باراک اوباما کے دور میں افغان جنگ کی حکمت عملی طے کرنے والوں میں سے ایک ریٹائرڈ امریکی لیفٹیننٹ جنرل ڈو لیوٹ نے کہا کہ ’اخلاقی پہلو مالی پہلو پر حاوی ہوتا ہے۔ اخلاق، تنظیم اور قیادت فوجیوں کی تعداد اور اسلحے سے زیادہ فیصلہ کن ہوتے ہیں۔‘
’ہم جنگی ساز و سامان مہیا کر سکتے ہیں لیکن اخلاقی معاملے کے ذمہ دار افغان خود ہیں۔‘
 

طالبان تعداد میں کم ہونے، جدید اسلحہ نہ ہونے اور فضائی طاقت نہ ہونے کے باوجود زیادہ بہتر فورس ثابت ہوئے (فوٹو اے پی)

اس کے برعکس طالبان تعداد میں کم ہونے، جدید اسلحہ نہ ہونے اور فضائی طاقت نہ ہونے کے باوجود زیادہ بہتر فورس ثابت ہوئے۔
امریکی خفیہ ادارے طالبان کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے، حتی کہ جو بائیڈن کے فوجی انخلا کے اعلان کے بعد بھی خفیہ ادارے طالبان کی ارادوں کو نہ بھانپ سکے کہ وہ اتنی تیزی سے ملک پر کنٹرول حاصل کر لیں گے۔
کولمبیا یونیورسٹی میں انٹرنیشنل افیئرز کے پروفیسر اور افغانستان میں امریکی کمانڈروں کے سابق مشیر سٹیفن بڈل نے کہا کہ جو بائیڈن کے اعلان سے تباہی کا آغاز ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اپریل سے پہلے ہی افغان فورسز نے آہستہ آہستہ جنگ ہارنی شروع کر دی تھی، جب انہیں معلوم ہوا کہ امریکی جا رہے ہیں تو لڑائی کے بغیر ہارنے کی لہر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔‘
امریکہ نے طالبان کے ساتھ جنگ کے دوران با اعتماد افغان فورسز تشکیل دینے کی کوشش کی تاکہ کابل حکومت کو کرپشن اور اقربا پروری میں گھرے ملک میں جمہوریت قائم کرنے میں مدد مل سکے۔
کئی برس تک امریکی فوج کی قیادت نے مسئلے کو دبائے رکھا کہا کہ کامیابی حاصل ہونے والی ہے۔ تاہم دوسرے لوگوں نے نوشتہ دیوار دیکھ لیا۔
2015 میں امریکی وار کالج کے سٹریٹیجک سٹڈیز انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر نے اپنی کتاب ’وائی افغان نیشنل سکیورٹی فورسز ول ناٹ ہولڈ‘ میں امریکی فوج کے سابقہ جنگوں میں سبق نہ سیکھنے کے بارے میں لکھا۔

Caption

کرس میسن نے کتاب میں لکھا کہ ’افغانستان میں امریکی فوج کی حکمت وہی رہی جو ویت نام اور عراق میں رہی اور پھر نتائج مختلف کیسے ہو سکتے ہیں۔ سست روی سے بڑھتی ناکامی کو ٹالا نہیں جا سکتا۔‘
سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹریشنل سٹڈیز کے تجزیہ نگار انتھونی کورڈزمین نے کہا کہ ’افغان فوج کے کچھ عناصر نے لڑائی کی، لیکن مجموعی طور پر امریکہ اور نیٹو کی طرف سے تیار کی گئی افغان سکیورٹی فورسز ’تاش کے پتوں کا ڈھیر‘ ثابت ہوئیں۔‘
افغان فورسز امریکہ پر اس قدر انحصار کرتی تھیں کہ ان کی تنخواہیں بھی پینٹاگون ادا کرتا رہا۔ اکثر اوقات یہ پیسہ کرپٹ افسروں اور حکومتی اہلکاروں کے ہاتھوں میں جاتا رہا۔
سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ریکنسٹرکشن کے دفتر کے مطابق امریکہ کی طرف سے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے خرچ کیے جانے والے تقریباً 145 ارب ڈالرز میں سے 83ارب ڈالرز پولیس اور فوج پر خرچ کیے گئے۔
صحافی کریگ وہٹلاک نے اپنی کتاب ’دی افغانستان پیپرز‘ میں لکھا کہ ’امریکہ کی جنگی حکمت عملی کا انحصار افغان فوج کی کارکردگی پر منحصر تھا۔ تاہم پینٹاگون نے حیران کن طور پر اس بات پر توجہ نہ دی کہ کیا افغان اپنی حکومت کے لیے مر مٹنے پر تیار ہیں یا نہیں۔‘

شیئر: