Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سب ختم ہوگیا‘، افغان پائلٹ ہم وطنوں کے لیے فکرمند

نیلوفر رحمانی کو طالبان کے اچانک قبضے پر شدید تحفظات ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان کی پہلی خاتون پائلٹ نیلوفر رحمانی نے کہا ہے کہ ’انہیں طالبان کے اچانک قبضے پر شدید تحفظات ہیں کیونکہ وہ اس سے قبل بے رحمی سے حکومت کرتے ہوئے خواتین پر ظلم اور القاعدہ کو امریکہ کے خلاف دہشت گردی کے لیے ٹھکانہ فراہم کر چکے ہیں۔‘
نیلوفر رحمانی نے عرب نیوز کے ریجنل ہیڈ بکر عطیانی کے ساتھ مغربی فوجوں کے نکلنے، طالبان کے کنٹرول سنبھالنے اور قوم کے غیریقینی مستقبل کے حوالے سے بدھ کے روز گفتگو کی۔
اس موقع پر دونوں رحمان اور بکر عطیانی کا کہنا تھا کہ وقت فیصلہ کرے گا کہ طالبان حکومت اپنے بے رحم ماضی کی طرف پلٹتی ہے یا پھر ان حقوق کا احترام کرتی ہے، جو 11 ستمبر 2001 کے حملے اور مغربی افواج کی آمد کے بعد بحال کیے گئے تھے۔
نیلوفر رحمانی کا کہنا تھا کہ ’اگر میں یہ کہوں یہ سب درست سمت میں جا رہا ہے تو یہ جھوٹ ہو گا کیونکہ معاملہ یہ نہیں ہے، ایک چھوٹی بچی کے طور پر میں طالبان کے دور میں بڑی ہوئی، میں ان تمام باتوں کی گواہ ہوں جو خواتین کے ساتھ ہوا، اور یہ تمام چیزیں میرے لیے ڈراؤنا خواب ہیں۔‘
ان کے مطابق ’میں نے ہمیشہ سے اپنے وطن کے لیے کچھ کرنا چاہا، خواتین کے لیے آواز اٹھائی اور بولنے میں مدد کی۔‘
’ہم 21 ویں صدی میں رہ رہے ہیں، ہمیں یہ سب کیوں چھوڑ دینا چاہیے؟ ہمارے پاس بات کرنے کا حق کیوں نہیں ہے؟‘
نیلوفر رحمانی کے بقول ’وہ افغان خواتین کی آزادی کی علامت تو ہیں لیکن انہوں نے جو کیا اور جو کر رہی ہیں وہ آسان نہیں تھا۔‘

نیلوفر رحمانی کا کہنا تھا کہ ’اگر میں یہ کہوں یہ سب درست سمت میں جا رہا ہے تو یہ جھوٹ ہو گا‘ (فوٹو: نیلوفر رحمانی ٹوئٹر)

’مجھے اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے بہت سی رکاوٹوں اور مشکلات سے گزرنا پڑا۔‘
انہوں نے کھلے لفظوں میں اس خوف کا اظہار کیا جو انہیں خواتین کی آزادی کے حوالے سے لاحق ہے۔
’20 سال میں خواتین کو جو حقوق دیے گئے اس دوران کئی ننھی لڑکیاں جوان ہوئی ہیں، انہوں نے آزادی دیکھی، انہوں نے تعلیم بھی حاصل کی۔ خواب دیکھے، کیا اب ان کے خلاف کچھ نہیں ہوگا؟‘
انہوں نے افسوس کے ساتھ کہا کہ ’میں واضح الفاظ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔‘
بکر عطیانی کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت کے حوالے سے سب کے ذہن میں سوالات موجود ہیں۔

عرب نیوز کے ریجنل ہیڈ بکر عطیانی نے بھی مباحثے میں حصہ لیا (فوٹو: عرب نیوز)

’دنیا کے سامنے بڑا چیلنج یہ ہے کہ طالبان انسانی حقوق کا احترام کریں گے، کیا وہ 20 سال کی کامیابیوں خصوصاً خواتین سے متعلق اور اظہار رائے کی آزادی کو جاری رکھیں گے؟‘
انہوں نے قبضہ کرنے کے بعد طالبان قیادت کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات اور اشاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’لگ تو ٹھیک رہا ہے ہمیں انتظار کرنا ہوگا کہ وہ حکومت میں دیگر دھڑوں کو شامل کرتے ہیں یا نہیں۔‘
پیر کے روز طالبان کی جانب سے 20 سالہ جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا گیا جو 11 ستمبر 2001 میں ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد شروع ہوئی تھی۔

’طالبان کے دور میں بڑی ہوئی، جو ایک ڈراؤنا خواب تھا‘ (فوٹو: نیلوفر رحمانی ٹوئٹر)

اُس وقت کی طالبان حکومت نے القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کو پناہ دی جو دو مئی 2011 کو ایک امریکی حملے میں مارے گئے تھے۔
اگرچہ طالبان کے آنے کے بعد افغانستان میں کئی ہلاکتیں ہوئیں تاہم ان میں زیادہ تر افراتفری اور طالبان کے خوف کے باعث ہوئیں ان میں کابل ایئرپورٹ کے وہ واقعات بھی شامل ہیں جن میں لوگوں نے جہاز کے ساتھ لٹک کر ملک سے نکلنے کی کوشش کی۔
  افغان صدر اشرف غنی نے اتوار کو ملک چھوڑ دیا تھا۔
نیلوفر رحمانی جنہوں نے دھمکیوں کے بعد افغانستان چھوڑ دیا تھا، کہتی ہیں کہ ’میں نہیں جانتی افغانستان میں سب کچھ ٹھیک کیسے لگ رہا ہے، میرے رشتہ داروں نے پیغامات بھیجے اور کالز کیں، وہ رو رہے ہیں، وہ مدد کی بھیک مانگ رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ انہیں قتل کیا جا رہا ہے۔‘

بکر عطیانی کے مطابق ’اب طالبان بین الاقوامی سپورٹ چاہتے ہیں اور تنہائی میں نہیں رہنا چاہتے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اس موقع پر بکر عطیانی نے کہا کہ ’وہ نیلوفر رحمانی کے تحفظات کو سمجھتے ہیں۔‘
’یقیناً ہر کوئی بہتری کی امید کر رہا ہے، تاہم رحمانی کے جذبات عام افغان عورت کے عکاس ہیں، یہ وہ خوف ہے ہر افغان عورت کو لاحق ہے۔‘
بکر عطیانی کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کی وجہ وہ تجربات ہیں جن سے طالبان کے گذشتہ دور میں یہ لوگ گزرے، اس میں ان کا قصور نہیں، تاہم میرے خیال میں اب طالبان سیاسی طور پر پختہ ہیں، وہ بین الاقوامی سپورٹ چاہتے ہیں اور تنہائی میں نہیں رہنا چاہتے، وہ بدل گئے ہیں تاہم وہ اتنے بدل گئے ہیں کہ انسانی حقوق کی پابندی کریں، میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑا سوال ہے؟‘

شیئر: