Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سائیکلسٹ ثمر خان نے گلگت بلتستان کے لوگوں کی ’توہین‘ کیوں کی؟

ثمر خان کی جانب سے سائیکل پر کے ٹو بیس کیمپ پہنچنے کا اعلان کیا گیا تھا (فوٹو: ثمر خان)
پاکستانی خاتون سائیکلسٹ ثمر خان نے گلگت بلتستان کے لوگوں سے ان کے علاقے کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والا وائس نوٹ لوگوں کے لیے نہیں بلکہ صرف ایک شخص کے لیے تھا۔
دو روز قبل ثمر خان کی آواز میں ایک آڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا جس میں انہیں شگر، داسو اور سکردو جیسے علاقوں کو جاہل کہتے ہوئے سنا جا سکتا تھا۔
’ہنزہ پڑھا لکھا ہے، انہیں کھیلوں کا پتہ ہے، وہ ریسرچ کرتے ہیں، وہ بین الاقومی ایکسچینج پروگرام کا بھی حصہ ہیں۔ وہ آپ کی طرح جاہل نہیں ہیں کہ اپنی دو چار دیواروں کی مسجد بنا کر بیٹھ گئے ہیں، کنویں کے مینڈک۔‘
ثمر خان کی گفتگو یہاں تک محدود نہیں رہی بلکہ انہوں نے مزید ایسے نامناسب الفاظ بھی استعمال کیے جو نقل نہیں کیے جا سکتے۔
تاہم انہوں نے اپنے سابقہ بیان کے حوالے سے اب مشروط معافی مانگ لی ہے۔ ہفتے کے روز ایک ٹوئٹر پیغام میں ثمر نے کہا تھا کہ ’میں اپنے الفاظ کی پوری ذمہ داری لیتی ہوں لیکن ذہن میں رکھیں وہ وائس نوٹ صرف ایک شخص کے لیے تھا۔‘
’میں اپنے بلتی دوستوں سے معافی مانگتی ہوں جن کے جذبات میرے الفاظ سے مجروح ہوئے ہیں۔ میں گلگت بلتستان کی ظرف سے ملنے ولی محبت پر سب کی شکرگزار ہوں۔‘
انہوں نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کا پورا آڈیو کلپ شیئر نہیں کیا گیا بلکہ اس کا ایک حصہ انٹرنیٹ پر اپلوڈ کیا گیا جس کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا اور ہمدردیاں سمیٹنا تھا۔
ثمرخان کی ’بدزبانی‘ کے پیچھے وجہ کیا تھی؟
رواں ماہ کی 16 تاریخ کو ثمر خان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی سائیکل پر دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کے بیس کیمپ پہنچنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔
ان کے اس کارنامے پر پاکستانی حکومت کے قومی انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کی جانب سے بھی مبارکباد دی گئی تھی۔
’ہم بہادر اور پرجوش ایتھلیٹ ثمر خان کو سائیکل پر دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کے بیس کیمپ پہنچنے والی پہلی خاتون بننے پر مبارکباد دیتے ہیں۔‘
 

تاہم ٹوئٹر پر کئی صحافیوں نے ثمر خان کے سائیکل پر بیٹھ کر دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے بیس کیمپ پہنچنے  پر سوالات اٹھا دیے۔
گلگت میں مقیم صحافی جمیل ناگری نے ثمرخان کے ساتھ ایک پورٹر کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ وہ ہیرو ہے جو ثمر خان اور ان کی بائیک کو کے ٹو بیس کیمپ تک پہنچایا اور ان کو کے ٹو کیمپ پہنچنے والی پہلی خاتون بنایا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب ان کے مبینہ کارنامے کو بے نقاب کیا گیا تو انہوں نے غلیظ زبان استعمال کی۔
سوشل میڈیا پر ثمرخان پر تنقید
صحافی علینہ شگری نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ ثمر خان کو اپنے کمنٹس پر بھی معافی مانگنی چاہیے اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی تقسیم کرنے کی کوشش پر معافی مانگنی چاہیے۔
علینہ نے ثمر خان کی معافی کے حوالے سے ایک اور ٹوئیٹ میں کہا کہ ’ثمر خان نے اگر مشروط طور پر معافی مانگی ہے تو اس کا کوئی مطلب نہیں بنتا، انہوں نے گلگت بلتستان کے لوگوں سے بدتمیزی کی، ان کو غلط ناموں سے پکارا، لوگوں اور صحافیوں پر الزامات لگائے۔‘
اعجاز شگری نامی ٹوئٹر صارف نے دعویٰ کیا کہ ’ثمرخان نے پورٹرز کو پیسے نہیں دیے، چھ لوگوں نے ان کا سامان پکڑا اور ان کے ساتھ موجود تھے لیکن انہوں نے کسی کو معاوضہ نہیں دیا۔‘
 

وہ مزید کہتے ہیں کہ جب پورٹرز نے ثمر سے پیسوں کا مطالبہ کیا تو سائیکلسٹ نے کہا کہ پیسے ان کی کمپنی سے لیں۔
’پورٹرز نے مجھے بتایا کہ وہ ان کی سائیکل اوپر بیس کیمپ تک لے کر گئے، انہوں نے (ثمر خان) صرف چند سیکنڈز ویڈیو کے لیے سائیکل چلائی۔‘
ثمر خان پر گلگت بلتستان میں داخلے پر پابندی؟
گلگت بلتستان کے وزیر برائے ٹورازم راجا ناصر علی نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ ثمر خان کی جانب سے ان کے علاقوں لوگوں سے بدتیمزی ناقابل قبول ہے۔

’میں نے سکردو کے ڈپٹی کمشنر کو کہا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور دیکھا جائے کہ کیا مستقبل میں ان کے گلگت بلتستان میں داخل ہونے پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔

شیئر: