Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آئی ایم اے ملٹری مین‘ فوجی ترجمان کا سیاسی سوالوں کے جواب سے گریز

جمعے کو سوال و جواب کا سیشن بھی عام روٹین کے مقابلے میں خاصا طویل رہا (فوٹو: آئی ایس پی آر)
ایک وقت تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سے بڑی بڑی سیاسی ہیڈ لائنز نکلتی تھیں جن کا اخبارات اور ٹی وی چینل پر کئی کئی دن چرچا ہوتا تھا۔ تاہم جمعے کو جب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس میں سے ایسی ہیڈ لائن کی تلاش میں سوال کرنے والے صحافیوں کو مایوسی ہوئی اور ہر بار یہی جواب ملا کہ ’آئی ایم اے ملٹری مین‘ یعنی میں فوجی آدمی ہوں۔
پریس کانفرنس شروع ہی ہوئی تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کر دیا کہ وہ آج افغانستان کی صورتحال کے ملکی سلامتی اور استحکام  پر اثرات اور پاکستان کی فوج کی جانب سے کیے گئے حفاظتی اقدامات پر بات کریں گے۔
انہوں نے افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے سے لے کر دہشت گردی کے خلاف کیے گئے متعدد آپریشنز کا ذکر کیا اور آخر میں حالیہ چند ماہ میں افغان سرحد پر تیزی سے بدلتی فوجی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستانی فوج کے اقدامات کا حوالہ دیا اور قوم کو یقین دہانی کروائی کہ فوج تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے دہشت گرد کارروائیوں کو روکنے کے لیے مکمل تیار ہے۔
جمعے کو سوال و جواب کا سیشن بھی عام روٹین کے مقابلے میں خاصا طویل رہا اور اس میں متعدد مواقع پر ان سے ایسے سوالات کیے گئے جن کا تعلق سیاسی یا سفارتی سطح پر حکومتی اقدامات سے تھا۔ ہر بار انہوں نے یہ کہہ کر دامن چھڑا لیا کہ ’آئی ایم اے ملٹری مین‘۔
ان سے ایک صحافی نے پوچھا کہ افغانستان میں کس قسم کی شمولیت پر مبنی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں فوجی آدمی ہوں یہ میرا کام نہیں ہے مجھے یقین ہے یہ افغان سربراہی میں قائم حکومت ہو گی۔‘
اسی طرح ان سے جب سوال کیا گیا کہ افغانستان میں معاشی حالات بگڑ رہے ہیں کیا پاکستان پڑوسی ملک کی معاشی مدد کرے گا؟
اس کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ’میں فوجی آدمی ہوں۔ امید ہے کہ بین الاقوامی برادری اور پاکستانی حکومت اس کو دیکھے گی مگر میں اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اگر طالبان کی حکومت قائم ہوتی ہے تو پاکستان کی حکومت کا ان کے ساتھ یقیناً رابطہ ہوگا۔ تاہم یہ پالیسی سطح کا فیصلہ ہے جو حکومت کرے گی۔
سفارتی حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا کہ افغانستان سے پاکستان میں عارضی قیام کے لیے آنے والوں میں مغربی ممالک کے سفارت خانوں میں کام کرنے والا لوکل افغان سٹاف بھی پاکستان آئے گا تو اس پر بھی ان کا کہنا تھا وزارت خارجہ جواب دے سکتی ہے۔  
تاہم ایک موقع پر جب ان سے سوال کیا گیا کہ افغانستان میں شرعی قانون نافذ ہو گا تو پاکستان پر کوئی اثر پڑے گا؟

 انہوں نے کہا کہ مغربی سرحد پر دہشت گردی کے خلاف آپریشن چل رہے تھے (فوٹو اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین اسلامی قوانین کے مطابق ہے اور عوامی امنگوں کا ترجمان ہے اس لیے پاکستان آئین کے تحت ہی چلے گا۔
دوسری طرف فوج کے پیش ورانہ امور پر میجر جنرل بابر افتخار نے بہت تفصیل سے بات کی۔ انہوں نے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے حوالے سے فوج کی گزشتہ 20 سال کے دوران کی گئی تیاروں اور اقدامات سے صحافیوں کو آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ مغربی سرحد پر دہشت گردی کے خلاف آپریشن چل رہے تھے اور مشرقی سرحد پر سیز فائر کی خلاف ورزیاں ہو رہی تھیں، یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے جامع بارڈر مینیجمنٹ سسٹم کا انعقاد کیا۔ بڑے بارڈر ٹرمینل کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا گیا۔ افغان سرحد پر باڑ کی ایک بہت بڑی اور اہم کاوش کی گئی اور اب تک 90  فیصد علاقے پر باڑ کی تنصیب کا پرخطر کام مکمل کر لیا گیا ہے۔
ان کے مطابق اس کام کے دوران کئی پاکستانی فوجی بھی جان سے گئے۔ صحافیوں کو بتایا گیا کہ پاکستان اور ایران کی سرحد پر بھی باڑ لگانے کا کام ہو رہا ہے اور وہ 50 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے۔

شیئر: