Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کابل میں300 امریکی رہ گئے،انخلا پر برطانوی حکومت تنقید کی زد میں

برطانوی فوج کے سربراہ جنرل سر نک کارٹر کے مطابق پیچھے رہ جانے والے افغانوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
افغانستان سے جلد بازی میں انخلا کا مشن مکمل کرنے اور سینکڑوں افراد کو پیچھے چھوڑنے پر برطانوی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے جب کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس وقت صرف 300 امریکی کابل میں رہ گئے ہیں جو افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں صرف تین سو امریکی شہری رہ گئے ہیں جو ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔
انٹونی بلنکن نے اے بی سی ٹیلی ویژن کو بتایا کہ ’ تین سو یا اس سے بھی کم امریکی اس وقت افغانستان میں موجود ہیں اور ہم ان کو وہاں سے نکالنے کے لیے سرگرمی سے کام کر رہے ہیں۔‘
بلنکن کا کہنا تھا کہ کچھ امریکیوں نے 31 اگست کی ڈیڈلائن کے بعد بھی افغانستان میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ان کے مطابق وہ افغانستان میں پھنس نہیں جائیں گے۔ ’امریکہ کے پاس ان کو بھی وہاں سے نکالنے کے لیے ایک میکینزم موجود ہے۔‘

برطانوی حکومت تنقید کی زد میں

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کابل سے 15 ہزار لوگوں کو نکالنے کے مشن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے اپنی زندگی میں ایسا ہوتے بہت کم دیکھا۔‘
تاہم برطانوی حکومت کے موجودہ اور سابق عہدیداروں نے مشن کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مزید بہت سے افغان شہریوں کو ریسکیو کیا جا سکتا تھا۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈومینیک راب پہلے ہی اس وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہیں کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے دوران انہوں نے اپنی چھٹیاں فوری طور پر منسوخ نہ کیں۔
اے ایف پی نے آبزرور اخبار کے حوالے سے بتایا ہے کہ برطانوی دفتر خارجہ کو ارکان پارلیمان اور مختلف غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے ہزاروں ای میلز کر کے خطرے میں گھرے افغانوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا تاہم ان کو دیکھا تک نہ گیا۔
آبزرور نے بتایا کہ ایسے شواہد دیکھے گئے کہ دفتر خارجہ کی جانب سے بنائے گئے سرکاری ای میل اکاؤنٹ میں آنے والی پانچ ہزار ای میلز کو کھولا تک نہیں گیا۔
ان ای میلز میں وزرا کے دفاتر سے میسجز اور اپوزیشن لیبر پارٹی کے رہنما لیڈر کیر سٹارمر کے پیغامات بھی شامل تھے۔ 

کابل میں طالبان نے ایئرپورٹ کی جانب جانے والے راستوں پر سخت حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اخبار کے مطابق ’یہ بات جاننا ممکن نہیں رہا کہ کتنے لوگ پیچھے رہ گئے کیونکہ انہوں نے ای میلز کھول کر نہیں دیکھیں۔‘
برطانوی دفتر خارجہ نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ان کی کرائسز ٹیم ہفتے کے سات دن اور 24 گھنٹے کام کر رہی تھی تاکہ آنے والی کالز اور ای میلز کو دیکھا جا سکے۔
حکام برطانیہ آنے کی اہلیت رکھنے والے ان افغانوں کی مخلتف تعداد بتاتے ہیں جن کو لایا نہ جا سکا۔
برطانوی فوج کے سربراہ جنرل سر نک کارٹر کہتے ہیں کہ یہ تعداد سینکڑوں میں ہے۔ 
دوسری جانب اخبار سنڈے ٹائمز نے ایک وزیر کا نام بتائے بغیر ان سے یہ بات منسوب کی ہے کہ ’ہم افغانستان سے مزید 800 سے ایک ہزار افراد کو نکال سکتے تھے۔‘
خیال رہے کہ سنیچر کو افغانستان میں برطانیہ کے سفیر لیوری برسٹو کا ویڈیو بیان میں کہنا تھا کہ انخلا کے اس فیز کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔
کئی مغربی ممالک 31 اگست کی مقرر کردہ حتمی تاریخ سے پہلے ہی افغانستان سے انخلا مکمل کر چکے ہیں۔ 

شیئر: