Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ کا انخلا مکمل، امریکی فوجیوں کا کابل ایئرپورٹ سے انخلا شروع

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ امریکی فوجیوں نے کابل کے ایئرپورٹ سے انخلا شروع کر دیا ہے۔
دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے طالبان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ بہت جلد کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول طالبان سنبھال لیں گے۔
’ہمارے پاس کابل ایئرپورٹ کو چلانے کے لیے کافی سکیورٹی اور ٹیکنیکل سٹاف موجود ہیں۔‘
کابل ایئر پورٹ پر داعش کے تباہ کن خودکش حملے کے بعد طالبان نے ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے کابل ایئرپورٹ کے اردگرد اضافی فورسز تعینات کر لیے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق طالبان نے ایئرپورٹ کی جانب سڑکوں پر نئے چیک پوائنٹس بھی بڑھا دیے ہیں۔
اس کے علاوہ وہ علاقے جہاں طالبان کے قبضے کے بعد ملک سے نکلنے والوے شہریوں کا ہجوم تھا، خالی کر لیے گئے ہیں۔
داعش خراسان کے خود کش حملے میں جمعے کو 169 افغان شہری جبکہ تیرہ امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے اب خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ گروپ دوبارہ حملہ کر سکتا ہے۔
امریکہ نے کہا ہے کہ اس نے ایک ڈرون حملے میں ایئرپورٹ حملے کے دو ماسٹر مائینڈ کو ہلاک کر دیا ہے۔
کئی مغربی ممالک حتمی تاریخ سے پہلے ہی انخلا مکمل کر چکے ہیں۔ افغانستان میں برطانیہ کے سفیر لیوری برسٹو کا ویڈیو بیان میں کہنا تھا انخلا کے اس فیز کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔
ایک افغان شہری جنہوں نے امریکی فوج کے لیے بطور ترجمان کام کیا، بتایا کہ ایک گروپ کے ساتھ جن کے پاس اجازت نامے تھے، ایئرپورٹ پہنچنے کی کوشش کی لیکن تین چیک پوسٹوں کے بعد طالبان نے ان کو چوتھے چیک پوسٹ پر روکا اور کہا گیا کہ ان کو امریکیوں نے کہا ہے کہ صرف امریکی پاسپورٹ رکھنے والوں کو آنے دیا جائے۔
کابل واپسی پر سکیورٹی خدشات کی وجہ سے نام نہ بتانے کی شرط پر مترجم نے اے پی کو بتایا کہ ’میں اپنے مستقبل کے لیے بہت ناامید ہوں۔ اگر انخلا کا عمل ختم ہوگیا تو ہمارا کیا ہوگا؟‘
امریکہ کا کہنا ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ افراد کو کابل ایئرپورٹ سے بحفاظت نکالا گیا ہے۔

برطانیہ نے کہا ہے کہ اس کا انخلا کا آپریشن مکمل ہو گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم ہزاروں افراد اب بھی کابل سے نکلنے کے لیے کوشاں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ منگل تک یہ ممکن نہ ہو۔
کابل میں سیکنڑوں مظاہرین، جس میں سول ملازمین بھی شامل تھے، ایک بینک کے باہر جمع تھے جبکہ لاتعداد دیگر اے ٹی ایم مشینوں پر کھڑے تھے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان کو گذشتہ تین سے چار ماہ تک ادائیگی نہیں کی گئی اور وہ اے ٹی ایم سے رقم بھی نہیں نکال سکتے۔
اے ٹی ایم مشینیں اب بھی کام کر رہی ہیں لیکن ہر 24  گھنٹوں میں شہری صرف دو سو امریکی ڈالرز کی رقم نکال سکتے ہیں۔
سنیچر کو مرکزی بینک نے کمرشل بینکوں کو کھولنے کی ہدایت کی اور کہا ہے کہ ہر روز دو سو امریکی ڈالرز نکالنے کی سہولت دیں۔ مرکزی بینک نے کہا کہ یہ عارضی اقدام ہے۔

افغانستان کی اقتصادی حالت مشکلات کی شکار ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

افغانستان کا زیادہ تر انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے۔ طالبان مرکزی بینک کے تقریباً نو بلین ڈالر تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ اس میں زیادہ تر نیویارک فیڈرل ریزور کے پاس موجود ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے بھی تقریباً 450 ملین امریکی ڈالرز کی منتقلی کو معطل کر دیا ہے۔
امریکی ڈالر کی باقاعدہ فراہمی کے بغیر مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کا خطرہ ہے جس کی وجہ سے بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
طالبان نے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی برداری کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں اور انہوں نے ایک متعدل اسلامی حکومت کا قیام کا بھی وعدہ کیا ہے تاہم بہت سے افغان شکوک و شبہات کے شکار ہیں۔

شیئر: