Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: نام میں کیا رکھا ہے؟

مدراس اب چنئی ہے لیکن تمل ناڈو کی ہائی کورٹ کا نام بھی مدراس سے ہی منسوب ہے۔ (فوٹو: ڈی این اے انڈیا)
انڈیا میں گوگل میپس کی شامت آئی ہوئی ہے، شہروں کے نام کچھ اس تیزی سے بدلے جا رہے ہیں کہ گوگل والے رات دن بس اپنے نقشے اور شہروں کے نام ہی اپڈیٹ کرتے رہتے ہوں گے۔
انجینیئر سر کھجاتے ہوئے ایک دوسرے سے پوچھتے ہوں گے ’یار یہ کوئی بندہ دلی سے ہری گڑھ جانے کا راستہ تلاش کر رہا ہے لیکن اس نام کا تو کوئی شہر ہمارے ڈیٹا بیس میں ہے ہی نہیں، کیا کریں؟‘
دوسرا کوئی زیادہ سمجھدار اور سیاست کے لحاظ سے زیادہ باشعور انجینیئر جواب دیتا ہوگا کہ ’یو پی کا سرکاری گزٹ چیک کرلو، وہاں انتخابات ہونے والے ہیں، حکومت نے پوری ریاست کا حلیہ بدلنے کا وعدہ کیا تھا، اس لیے سوچا ہوگا کہ جب پوری ریاست ہی نئی ہوگئی تو نام ہی کیوں پرانے رہیں۔‘
اس لیے اب آپ کو علی گڑھ جانا ہو تو ہری گڑھ کا راستہ تلاش کیجیے گا۔ سلطانپور جانا ہو تو ’کش بھاون پور‘ آپ کی منزل ہونی چاہیے۔ ہاں حکومت اس بات کی گارنٹی دیتی ہے کہ آپ پہنچیں گے وہیں جہاں آپ کے یار دوست اور رشتے دار صدیوں سے بستے آئے ہیں۔
اور اگر یہ دونوں نام آپ کو ابھی نقشوں میں نظر نہ آئیں تو بس ذرا انتظار، یہ تجاویز حکومت کو بھیجی گئی ہیں، جب تک ان پر عمل ہو علی گڑھ اور سلطانپور سے ہی کام چلا لیجیے گا۔ ان ناموں سے بھی آپ وہیں پہنچیں گے جہاں مستقبل میں آپ کو پہنچانے کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے یو پی میں الہٰ آباد بھی ایک شہر ہوا کرتا تھا، اب وہ ماضی کی ایک دھندلی سی یاد بن گیا ہے۔ آپ وہاں کسی سے بھی مل لیجیے، لوگ یہ ہی بتائیں گے کہ جب سے الہٰ آباد سے پیچھا چھوٹا ہے اور پریاگ راج میں آکر بسے ہیں بس زندگی ہی بدل گئی ہے۔

اب آپ کو علی گڑھ جانا ہو تو ہری گڑھ کا راستہ تلاش کیجیے گا۔ (فوٹو: ہندوستان ٹائمز)

سب کچھ نیا نیا سا لگتا ہے، نہ بجلی کی قلت باقی ہے اور نہ پانی کی، سڑکیں ایسی کہ بس یہ ہی دل کرتا ہے کہ ان پر چلتے رہو، بچوں کے لیے اچھے سکول، غریبوں کے علاج کے لیے اچھے سرکاری ہسپتال۔۔۔ اور کالج یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرتے ہی نوکریاں۔۔۔ زندگی میں انسان کو اور کیا چاہیے۔
وہاں اکثر آپ کو لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیں گے کہ ہمیشہ آگے کی طرف ہی بڑھنا، پیچھے کی طرف چلنے لگے تو الہٰ آباد پہنچ جاؤ گے، پھر حکومت پر اپنا غصہ مت نکالنا۔
لوگ الہٰ آباد جیسے شہروں کی مثال دیکھتے ہیں تو ان کا بھی دل کرتا ہے کہ اس ترقی سے ہم کیوں محروم رہیں۔ اس لیے یہ ایک ختم نہ ہونےوالی سائیکل سی بنتی جاتی ہے۔
ترقی کے اس فارمولے کی خبر دلی بھی پہنچ گئی ہے۔ وہاں بھی کچھ لوگ کچھ پرانے نام بدلنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر محمد پور گاؤں کا نام بدل کر مادھو پورم رکھنے کی تجویز ہے اور اگر ان لوگوں کی چلی تو ہمایوں پور جانے کے لیے آپ کو ہنومان پور جانا ہوگا۔
ترقی کے لحاظ سے دلی ہمسایہ اترپردیش سے بہت آگے ہے، اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں ہے، نام کتنے بھی بدل دیے جائیں آپ کے عزیزو اقارب وہی رہیں گے اور وہیں رہیں گے، باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ بھائی، منشی آپ کو کنفیوز کرنا نہیں ہے بس نئی نئی جگہ دکھانا ہے۔

لوگ الہٰ آباد جیسے شہروں کی مثال دیکھتے ہیں تو ان کا بھی دل کرتا ہے کہ اس ترقی سے ہم کیوں محروم رہیں۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

اس سے پہلے بھی انڈیا کے کئی بڑے شہروں کے نام بدلے جا چکے ہیں۔ کچھ کی تاریخی وجوہات تھیں، وقت کے ساتھ ان کے نام بگڑ گئے تھے، کچھ ایجاد کر لی گئیں۔
اس لیے بامبے اب ممبئی ہے لیکن ریاست کی ہائی کورٹ کو اب بھی بامبے ہائی کورٹ ہی کہا جاتا ہے۔ کیوں؟ یہ ہم سے مت پوچھیے، عدالت سے کون اڑتا ہے، دو دن جیل میں گزارنے پڑ جائیں تو اچھے اچھوں کی عقل ٹھکانے آجاتی ہے۔
مدراس اب چنئی ہے لیکن تمل ناڈو کی ہائی کورٹ کا نام بھی مدراس سے ہی منسوب ہے۔ کلکتہ اب کولکتہ ہے اور یہ فہرست کافی لمبی ہے۔
لیکن حکومتیں نام کیوں اور کب بدلتی ہیں۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ جب وہ باقی تمام کاموں سے فارغ ہو چکی ہوں تو سوچتی ہیں کہ ہم ملک کی عوام کو جوابدہ ہیں اس لیے خالی تو بیٹھ نہیں سکتے، چلو جب تک کوئی دوسرا بڑا چیلنج آئے چھوٹے موٹے جو کام التوا میں پڑے ہیں انہیں نمٹا دیتے ہیں۔
لوگ خوش ہو جائیں گے اور انہیں یہ پیغام بھی جائے گا کہ ہم ان کا مستقبل بھی سنوار رہے ہیں اور ماضی بھی۔
اسی لیے توجہ صرف شہروں کے نام بدلنے پر ہی نہیں ہے، تاریخ بھی نئے سرے سے لکھی جارہی ہے۔ ویسے بھی سچ یہ ہے کہ انسان کو وقت کے ساتھ بدلنا چاہیے، نئے زمانے میں پرانی تاریخ پڑھنے کا کیا جواز ہے؟ سب کو اپنی پسند کی تاریخ پڑھنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔

بامبے اب ممبئی ہے لیکن ریاست کی ہائی کورٹ کو اب بھی بامبے ہائی کورٹ ہی کہا جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سچ یہ ہے کہ یہ ایک طرح کی دوڑ ہے۔ اس میں بی جے پی والے کافی آگے بھاگ رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ قوم پرستی، حب الوطنی اور مذہب کی کچھ کھچڑی سی پک گئی ہے۔ مثال کے طور پر دلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت نے ’دیش بھکتی‘ کا نصاب متعارف کرایا ہے۔
اس کا بی جے پی کو پیغام یہ ہے کہ اس ریس میں ہم آپ کو اکیلے نہیں دوڑنے دیں گے۔ پارٹی دلی میں پانچ سو قومی پرچم بھی لگا رہی ہے۔ آئیڈیا یہ ہے کہ آپ کہیں بھی ہوں آپ کو ایک ترنگا ضرور نظر آنا چاہیے۔ اس سکیم پر تقریباً چوراسی کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔
دلی کی حکومت کا بجٹ تقریباً ستر ہزار کروڑ روپے کا ہے۔ اس لیے چوراسی کروڑ کس گنتی میں آتے ہیں؟ شہروں اور ضلعوں کے نام بدلنے پر بھی بڑی رقم خرچ ہوتی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق الہٰ آباد کو پریاگ راج بنانے میں تین سو کروڑ سے زیادہ خرچ ہوئے تھے۔
یہ اپنے اپنے نظریے کی بات ہے۔ گنتی میں وہ لوگ بھی نہیں آتے جن کی زندگیاں اس رقم سے ہمیشہ کے لیے بدلی جا سکتی ہیں۔ نئے نام والے شہر میں رہنا تو اچھا لگتا ہے لیکن لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں