Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیگاسس کی جاسوسی پر انڈیا میں ہنگامہ: دل سے دلی

جن شخصیات کے فون ہیک کیے گئے ہیں اس فہرست میں راہل گاندگی کا نام بھی شامل ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یہ عوام بھی کیا ہیں، انہیں کون خوش کرسکا ہے؟ زیادہ آزادی دے دو تو لوگ کہتے ہیں حکومت کیا کر رہی ہے، سارے فیصلے تو ہمارے اوپر چھوڑ رکھے ہیں اور خود ہمارے پیسے سے عیش کر رہے ہیں اور ذرا سختی ہوئی تو کہتے پھرتے ہیں کہ اب جمہوریت کی تو بس دھندلی سی یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں، ہماری یاد تو بس الیکشن کے وقت ہی آتی ہے باقی ٹائم تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی بادشاہ کا انتخاب کر لیا ہو۔

ہماری بات کون سنتا ہے؟

بھائی اتنی بڑی آبادی ہے ہر شخص کی انفرادی طور پر بات سننا کہاں ممکن ہے لیکن حکومتوں سے جو ہو سکتا ہے وہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ آپ کو ساس بہو کے سیریل دیکھنے سے فرصت نہیں ملتی ورنہ آپ نے پیگاسس کے بارے میں ضرور سنا ہوتا۔ آپ ابھی تک ان اولڈ فیشنڈ سازشوں میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔
پیگاسس ایک غیرمعمولی سافٹ ویئر ہے جو ایک اسرائیلی کمپنی نے تیار کیا ہے۔ کچھ حکومتیں لاکھوں ڈالر خرچ کرکے یہ سافٹ ویئر خریدتی ہیں اور پھر اسے اپنی عوام کی باتیں سننے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
بنیادی طور پر اسے ایک طرح کی ہیکنگ سمجھ لیجیے، آپ کے فون پر ایک ٹیکسٹ پیغام آئے گا اور آپ کو خبر بھی نہیں ہوگی اور آپ کی زندگی سے پرائیویسی نام کی چیز ختم ہو جائے گی۔
پھر ٹیکسٹ بھیجنے والا شخص بس یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے آپ کے فون کے اندر ہی بیٹھا ہو، وہ آپ کی ساری باتیں سن سکتا ہے اور فون میں موجود تمام ڈیٹا، تصاویر ویڈیو۔۔۔ سب دیکھ سکتا ہے۔
اب اس سے زیادہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ کی بات سننے کا اس سے بہتر کیا طریقہ ہو سکتا ہے، اگر کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی تو وضاحت کے لیے آپ کو پریشان کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی، فون کے اندر ہی کہیں نہ کہیں ساری تفصیل موجود ہوگی کیونکہ ہماری زندگی میں آج کل ایسا کیا ہوتا ہے جس کا ریکارڈ ہمارے سمارٹ فون میں موجود نہ ہو؟ کہاں گئے، کس سے ملے اور کب۔۔۔ ہر قدم کا ڈیجیٹل فٹ پرنٹ فون میں ریکارڈ ہوتا ہے۔
یہ سمارٹ فون کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ آپ کہیں گے کہ سب کی بات نہیں سنتے۔ بھائی، آئس لینڈ جیسی آبادی ہوتی تو پوری آبادی کو کانفرنس کال پر لیا جاسکتا تھا لیکن یہاں اگر یکسوئی کے ساتھ بات سننی ہو تو پھر کچھ لوگوں کا انتخاب کرنا ہی پڑتا ہے۔ کچھ صحافی، کچھ حزب اختلاف کے سیاست دان، کچھ اپنی ہی پارٹی کے رہنما،، صرف ان کی باتیں بھی سن لی جائیں تو معاشرے کی نبض پر آپ کا ہاتھ رہے گا۔

راہل گاندھی کا نام اس فہرست میں گذشتہ پارلیمانی انتخاب کے آس پاس شامل کیا گیا تھا (فوٹو: ٹوئٹر)

لیکن صدق دلی کی آج کل کیا قیمت باقی رہ گئی ہے؟ انڈیا میں لوگ ہنگامہ کر رہے ہیں کہ حکومت نے پیگاسس کا استعمال کرکے درجنوں لوگوں کی باتیں سنی ہیں۔ ان میں صحافی بھی شامل ہیں اور وہ بھی چراغ پا ہیں۔ کیوں، یہ اپنی سمجھ سے باہر ہے۔ ان کے پاس کوئی بڑی خبر ہوتی ہے تو وہ خود کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں۔ تو اگر اس کام میں حکومت یا اس کی کوئی ایجنسی ان کی معاونت کر رہی ہے تو اس میں کیا برائی ہے؟
یہ کہانی اب کافی بڑی ہوتی جار ہی ہے۔ حکومت نے دو ٹوک الفاظ میں اس بات سے انکار نہیں کیا ہے کہ وہ پیگاسس کا استعمال کر رہی تھی۔ اب تک صرف اتنا کہا گیا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر کسی کی بات نہیں سنتی ہے۔ بات سمجھ میں آتی بھی ہے۔ حکومت کیسے قانون توڑ سکتی ہے، وہی قانون جو اس نے خود بنائے ہوں؟ یہ تو بالکل ایسے ہوگا جیسے سکول کا پرنسپل ٹائلٹ میں سگریٹ پیتے ہوئے پکڑا جائے اور پھر کہے کہ میں فائر الارم ٹیسٹ کر رہا تھا، اگر آگ لگ جاتی اور کوئی حادثہ پیش آجاتا تو آپ ہی کہتے کہ پرنسپل صاحب کیا سو رہے تھے؟
خیر، جن صحافتی اداروں نے یہ رپورٹ جاری کی ہے خود ان کا کہنا ہے کہ ’منتخب شدہ لوگوں کی فہرست میں نام ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ واقعی ان لوگوں کے فون ہیک کیے گئے ہیں، اس کی تصدیق صرف فون کا فارینزک معائنہ کرنے کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔‘
تو اس فہرست میں کون کون شامل ہے؟ راہل گاندھی جو ہمیشہ کہتے ہیں کہ انہیں پارلیمنٹ میں بولنے نہیں دیا جاتا، ان کی بات نہیں سنی جاتی۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ آپ پارلیمنٹ آتے ہی کتنی مرتبہ اور کتنی دیر کے لیے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ اس لیے ان کا نام اس فہرست میں شامل کیا گیا ہو تاکہ اگر وہ کبھی بھی، اور صرف پارلیمنٹ میں ہی نہیں، کسی سے کوئی اہم بات کریں تو وہ پوری توجہ سے سنی جاسکے۔
ان کا نام اس فہرست میں گذشتہ پارلیمانی انتخاب کے آس پاس شامل کیا گیا تھا۔ ان کی بات سن کر سننے والوں کو پتا چلا ہوگا کہ وہ الیکشن میں کانگریس کو جتانے اور بی جے پی کو ہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ یار اس وقت وہ کانگریس کے صدر تھے، یہ معلوم کرنے کے لیے ان کا فون ہیک کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر آپ واقعی یہ سوچتے ہیں تو آپ کانگریس کی اعلیٰ قیادت کو ٹھیک سے نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ اقتدار کے پیچھے نہیں اس سے دور بھاگتے ہیں۔ یا کم سے کم گذشتہ سات برسوں میں ان کا ریکارڈ دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے۔

سرکرہ سائنس دان ڈاکٹر گگن دیپ کانگ کا نام ٹیلی فون ہیکنگ کے شکار افراد کی فہرست میں شامل ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

اسمبلی انتخابات کے بعد کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں ان کی حکومتیں بنیں، اب اقتدار بی جے پی کے پاس ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اب مہاراشٹر، پنجاب اور راجستھان کا نمبر ہے جہاں اب بھی کانگریس کی حکومتیں باقی ہیں۔ اس کے بعد سلیٹ بالکل صاف ہو جائے گی۔
خیر، ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جنہوں نے کبھی یہ سوچا ہو کہ حکومت ہماری بات نہیں سنتی چاہے اقتدار میں کانگریس ہو یا بی جے پی۔ یہ تو چلتا ہی ہے، بس کبھی کبھی خبر باہر آجاتی ہے اور ہنگامہ ہوجاتا ہے۔
لیکن اس فہرست میں دو نام ایسے ہیں جنہیں پڑھ کر ہمیں بھی حیرت ہوئی۔ ایک تو ملک کی سرکرہ سائنسدان ڈاکٹر گگن دیپ کانگ ہیں جو وبائی امراض کی ماہر ہیں اور کورونا وائرس کی وجہ سے آج کل تقریباً روزانہ ٹی وی پر نظر آتی ہیں۔ ان کا نام اس فہرست میں کیوں ہے؟ کچھ آئیڈیا لگے گا تو آپ کو ضرور بتائیں گے۔
اور دوسرا نام ہے ملک کے نئے وزیر اطلاعات کا۔ اشونی ویشنو نے چند روز قبل ہی یہ قلم دان سنبھالا ہے۔ ان کی وزارت کی رضامندی کے بغیر اس انداز میں کسی کی بات سننا ممکن نہیں ہے۔ ان سے پہلے یہ قلم دان بی جے پی کے سینیئر رہنما روی شنکر پرساد کے پاس تھا لیکن کابینہ میں چند روز قبل جب رد و بدل ہوئی تو حیرت انگیز طور پر انہیں گھر بیٹھا دیا گیا، کیوں؟ یہ فی الحال کسی کو نہیں معلوم۔
ستم یہ ہے کہ اب نئے وزیر کو ہیکنگ اور ٹیپنگ کے الزامات کو مسترد کرنا پڑ رہا ہے، لیکن وہ یہ تو ضرور سوچتے ہوں گے کہ ان کا نام اس فہرست میں کیوں شامل کیا گیا تھا؟ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنا فون فارینزک معائنے کے لیے بھیج دیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یہ پوری خبر ہی فرضی ثابت ہو اور جیسا اشوینی ویشنو نے کہا یہ واقعی جمہوری اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش ہو۔ ہونے کو تو کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن عوام کو خوش نہیں کیا جاسکتا۔
حکومت بات سنے تو ناراض نہ سنے تو ناراض۔

شیئر: