انڈیا نے سینکڑوں افراد کو بغیر کسی مقدمے کے بنگلہ دیش ملک بدر کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن اور وکلاء اس اقدام کو ’غیرقانونی‘ اور ’نسلی پروفائلنگ‘ پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کر رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق نئی دہلی کا کہنا ہے کہ ڈی پورٹ کیے گئے تارکین وطن وہ افراد ہیں جن کا دستاویزات میں ریکارڈ نہیں۔
مزید پڑھیں
-
ڈھاکہ میں مظاہرین نے حسینہ واجد کا خاندانی گھر جلا دیاNode ID: 885499
-
انڈیا شیخ حسینہ کو جھوٹے بیانات دینے سے روکے، بنگلہ دیشNode ID: 885544
وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے طویل عرصے سے تارکین خاص طور پر مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش سے آنے والوں کے حوالے سے سخت گیر مؤقف اپنا رکھا ہے۔
انڈین حکومت کے اعلیٰ حکام نے انہیں ’دیمک‘ اور ’درانداز‘ قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا کے 20 کروڑ مسلمان خاص طور پر بنگالی زبان بولنے والے خوف کا شکار ہیں۔
انڈیا کے انسانی حقوق کے کارکن ہرش میندر کا کہنا ہے کہ ’مسلمان خاص طور پر ملک کے مشرقی حصے سے تعلق رکھنے والے، خوفزدہ ہیں۔‘
انڈیا کی مشرقی ریاست آسام سے تعلق رکھنے والی رحیمہ بیگم نے بتایا کہ پولیس نے انہیں مئی کے آخر میں بنگلہ دیش کی سرحد پر لے جانے سے پہلے کئی دنوں تک حراست میں رکھا۔

رحیمہ بیگم اور ان کے خاندان نے اپنی زندگی انڈیا میں گزاری ہے۔
’میں نے اپنی ساری زندگی یہاں گزاری ہے۔ میرے والدین، میرے دادا، دادی، وہ سب یہیں سے ہیں۔ میں نہیں جانتی انہوں نے میرا ساتھ ایسا کیوں کیا۔‘
رحیمہ بیگم نے بتایا کہ ’انہوں نے ہمیں فاصلے پر ایک گاؤں دکھایا اور ہمیں وہاں کوہنیوں کے بل رینگتے ہوئے جانے کا کہا۔ انہوں نے ہمیں کہا کہ کھڑے ہونے اور چلنے کی ہمت نہ کرو، ورنہ ہم تمہیں گولی مار دیں گے۔‘
رحیمہ بیگم نے بتایا کہ بنگلہ دیشی مقامی افراد نے انہیں اور گروپ میں شامل دیگر لوگوں کو سرحدی پولیس کے حوالے کر دیا جس نے انہیں ’تشدد کا نشانہ بنایا‘ اور انڈیا واپس جانے کا حکم دیا۔
2024 میں عوامی بغاوت کے بعد سے بنگلہ دیش کے انڈیا کے ساتھ تعلقات مین سردمہری دیکھی گئی ہے۔
انڈیا نے پہلگام حملے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے اور تارکین وطن کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔