Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین کی فٹبال ٹیم کو افغانستان سے نکالنے کی کوششیں جاری

فرخندہ محتاج کا کہنا ہے ’14 سے 16 سال کی لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کو بھی طالبان نشانہ بنا سکتے ہیں۔‘ (فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)
افغانستان کی خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم کی کھلاڑی ایک لمحے کے نوٹس پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہی ہیں تاکہ طالبان سے بچ سکیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان لڑکیوں کی زندگیاں صرف اس وجہ سے خطرے میں ہیں کیونکہ انہوں نے اپنا پسندیدہ کھیل کھیلنے کا انتخاب کیا ہے۔
افغانستان کی خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم کی اراکین اور ان خاندان کے درجنوں افراد اور فٹ بال فیڈریشن کے عملے کو نکالنے کی ایک بین الاقوامی کوشش کو گذشتہ ہفتے کابل ایئرپورٹ پر ایک خودکش بم دھماکے، جس میں 169 افغان اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے، ایک زبردست دھچکا لگا۔
اب خوفزدہ اور مایوس لڑکیاں پریشان ہیں کہ آیا سابق امریکی فوجی اور انٹیلی جنس عہدیداروں، اراکین کانگریس، امریکی اتحادیوں، انسانی امدادی گروہوں اور افغانستان کی خواتین کی قومی ٹیم کی کپتان کا دور دراز کا اتحاد انہیں اور ان کے پیاروں کو محفوظ بنا سکتا ہے۔
اس حوالے سے سابق کانگریس چیف آف سٹاف اور صدر جارج ڈبلیو بش کے ماتحت وائٹ ہاؤس کے عہدیدار رابرٹ میک کرری جو سپیشل فورسز کے ساتھ افغانستان میں کام کرتے رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ ’یہ ناقابل یقین نوجوان خواتین ہیں جنہیں گھروں کے عقبی دلان میں کھیلنا چاہیے، سوئنگ سیٹ پر کھیلنا چاہیے، اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنا چاہیے اور یہاں وہ فٹ بال کھیلنے کے علاوہ کچھ نہ کرنے کی وجہ سے بہت بری حالت میں ہیں۔‘

فرخندہ محتاج کے مطابق لڑکیاں ’اپنی آزادی سے چند قدم کے فاصلے‘ پر تھیں جب خودکش حملہ ہوا۔ (فوٹو: یارک یونیورسٹی ایتھلیٹکس)

’ہمیں ان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں محفوظ مقام تک پہنچائیں۔‘
خیال رہے کہ سنہ 2007 میں بننے والی افغان خواتین ٹیم کی بیشتر اراکین کو گذشتہ ہفتے آسٹریلیا منتقل کیا گیا تھا۔
تاہم افغانستان کی خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم کی کپتان فرخندہ محتاج جو اب کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں، کا کہنا ہے ’14 سے 16 سال کی لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کو بھی طالبان نشانہ بنا سکتے ہیں۔‘
’صرف اس لیے نہیں کہ خواتین اور لڑکیوں کو کھیل کھیلنے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ لڑکیوں کے حقوق کی حامی تھیں اور اپنی برادریوں کی فعال رکن تھیں۔‘
فرخندہ محتاج جو لڑکیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں کا کہنا ہے ’وہ تباہ حال ہیں۔ وہ جس صورتحال میں ہیں اس پر غور کرتے ہوئے وہ ناامید ہیں۔‘
 

ریسکیو کی کوششوں کو ان لڑکیوں کا گروپ بھی پچیدہ بنا رہا ہے جس میں 133 افراد شامل ہیں۔ (فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)

میک کرری اور مہتاج نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں لڑکیوں کو بچانے کی کم از کم پانچ ناکام کوششیں ہوئیں۔
فرخندہ محتاج کے مطابق وہ ’اپنی آزادی سے چند قدم کے فاصلے‘ پر تھیں جب خودکش حملہ ہوا۔
ریسکیو کی کوششوں کو ان لڑکیوں کا گروپ بھی پچیدہ بنا رہا ہے جس میں 133 افراد شامل ہیں۔ اس میں ٹیم کی 26 ارکان کے ساتھ ساتھ بالغ افراد اور بچوں سمیت دیگر نومولود بھی شامل ہیں۔ جبکہ کئی کے پاس کابل سے پروازوں کے لیے پاسپورٹ یا دیگر ضروری دستاویزات نہیں ہیں۔

شیئر: