Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی انخلا کے آخری لمحات، ’قیامت کا منظر پیش کر رہے تھے‘

پیر کی رات کو کابل ایئر پورٹ سے امریکی فضائیہ کے آخری پانچ طیاروں نے پرواز بھری تھی ۔فوٹو اے پی
افغانستان سے سب سے آخر میں نکلنے والے امریکی فوجی پائلٹس اور فضائی عملے کے سامنے ایک عجیب منظر تھا۔ آسمان آتش بازی سے روشن تھا جبکہ وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ کابل ایئرپورٹ کے ایئرفیلڈ پر تباہ شدہ طیاروں اور دیگر ساز و سامان کے خول بکھرے پڑے تھے اور ٹارمک پر آوارہ کتے گشت کر رہے تھے۔ گھپ اندھیرے میں ایئر فیلڈ پر چہل قدمی کرتے ہوئے طالبان جنگجو نائٹ ویژن گوگلز کے ذریعے واضح دکھائی دے رہے تھے۔
پیر کی رات کو جب امریکی فوج کا انخلا تکمیل کے آخری مراحل میں تھا تو کابل ایئر پورٹ کے رن وے پر امریکی فضائیہ کے آخری پانچ سی 170  طیارے اڑان بھرنے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ لیکن ان آخری لمحات میں ان طیاروں، ان کے مسافروں اور عملے کی حفاظت کے لیے امریکی راکٹ ڈیفنس سسٹم نصب نہیں تھا اور نہ ہی رہنمائی کے لیے ایئرپورٹ کے کنٹرول سینٹر میں کوئی فرد موجود تھا۔
امریکی فضائیہ کے پائلٹس اور عملے کا خبر رساں ادارے اے پی کے ساتھ انٹرویو میں کا کہنا تھا کہ افغانستان سے انخلا کے آخری لمحات قیامت کا منظر پیش کر رہے تھے۔
سکیورٹی کے انچارج ایئر فورس لیفٹیننٹ کرنل براڈن کولمن نے آخری چند گھنٹے کے مناظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ بالکل قیامت کا منظر لگ رہا تھا۔
’کسی زومبی فلم کے جیسا لگ رہا تھا جس میں تمام جہاز تباہ ہو چکے ہوں، ان کے دروازے کھلے ہوں، اور پہیے ٹوٹے ہوئے ہوں۔ (ایئر فیلڈ پر) ایک ایسا جہاز بھی کھڑا تھا جو مکمل جل چکا تھا، کاک پٹ دکھائی دے رہا تھا جبکہ باقی کا جہاز مچھلی کے ڈھانچے جیسا لگ رہا تھا۔‘
آخری پانچ طیاروں کو باحفاظت نکالنے کی ذمہ دار ایئر فورس کیپٹن کربی ویدان نے بتایا کہ ’یقیناً بہت زیادہ ذہنی دباؤ تھا اور ہر کوئی اپنے ارد گرد کے مناظر دیکھ کر چڑچڑے پن کا شکار تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کے جہاز ایئر پورٹ پر اس جگہ پر کھڑے تھے جو پہلے بھی حملے کا نشانہ بن چکی تھا۔
کیپٹن کربی نے بتایا کہ ایک موقع پر شہریوں کا ایک گروپ ایئر فیلڈ پر آ گیا تھا جس نے جہاز تک جانے کی کوشش کی لیکن انہیں فوجی اہلکاروں نے روک لیا۔

کمانڈر میجر جنرل کرس ڈوناہو افغانستان سے نکلنے والے آخری امریکی تھے۔ فوٹو اے پی

روانگی سے پہلے ایئر فورس کی ٹیم کو تین سو آئٹم کی فہرست کو تفصیل سے چیک کرنا تھا جس میں انہیں تین گھنٹوں سے زیادہ کا وقت لگا۔ اس فہرست میں آخری چار ’لٹل برڈ‘ ہیلی کاپٹرز کو پیک کرنا اور تمام فوجی اہلکاروں کے سامان کی موجودگی کو یقینی بنانا بھی شامل تھا۔
اس تمام آپریشن کو میلوں دور امریکی ریاست الینوئے میں واقع سکاٹ ایئر فورس بیس سے جنرل جیکالین اپنی ویڈیو سکرین پر لائیو دیکھ رہی تھیں۔ وہ کابل ایئر فیلڈ پر موجود لیفٹیننٹ ایلکس پیلباتھ کو احکامات جاری کرتے ہوئے بھی سن سکتی تھیں جو فائنل روانگی کے آپریشن کے انچارج تھے۔
ایئر فورس پائلٹ کیپٹن کربی ویڈن نے ایئر ٹریفک کنٹرول ٹاور کے غیر فعال ہونے کے حوالے سے کہا کہ ’یقیناً یہ سارا تجربہ مختلف تھا۔ مجھے کبھی بھی ایسی ایئر فیلڈ کا تجربہ نہیں ہوا جہاں سے پرواز بھرنے کی مجھے اجازت نہ ہو۔‘
جیسے ہی پانچوں طیاروں نے پرواز بھری تو ان پر موجود فوجی عملے نے خوشی سے نعرے لگائے۔ ان میں سے اکثر سپیشل آپریشن فورسز اور 82 ویں ایئر بورن ڈویژن کے اہلکار تھے۔
جب امریکی فضائیہ کا آخری طیارہ سی 17 کابل کی فضا سے باہر نکلا تو لیفٹیننٹ ایلکس پیلباتھ نے مشن میں شامل تمام اہلکاروں کو خوش آمدید کہا، جس کا مطلب یہ تھا کہ تمام جہاز اب خطرے سے باہر ہیں۔
امریکی فوج کے 82 ویں ایئر بورن ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل کرس ڈوناہو افغانستان سے نکلنے والے آخری فوجی تھے جو ایئر فیلڈ پر موجود سی 17 طیارے پر سوار ہوئے تھے۔

امریکہ کے انخلا کے بعد ایئر پورٹ کی سکیورٹی طالبان نے سنبھال لی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

میجر جنرل کرس ڈوناہو انخلا کے مشن کے سکیورٹی انچارج تھے۔ جیسے ہی ان کے جہاز نے فضا میں پرواز بھری تو انہوں نے بھی اپنی طرف سے تمام اہلکاروں کو پیغام بھیجا ’کام بخوبی انجام دیا۔ آپ سب پر مجھے فخر ہے۔‘
یپٹن کربی ویڈن نے بتایا کہ واپسی کی فلائٹ پر سب فوجی اہلکار جہاز کے فرش پر تھکے ہارے لیٹے ہوئے تھے۔
’جہاز کے اڑتے ہی آدھے گھنٹے کے اندر سب سو چکے تھے۔‘

شیئر: