Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کابل ایئرپورٹ پر متعدد راکٹ فائر، امریکی دفاعی میزائل نظام نے تباہ کردیے

کابل کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر متعدد راکٹ فائر کیے گئے لیکن امریکی دفاعی میزائل نظام کے ذریعے انہیں ناکام بنا دیا گیا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق پیر کی صبح ہونے والے اس حملے کے حوالے سے ایک امریکی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کابل ایئر پورٹ پر پانچ راکٹ فائر کیے گئے، اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ تمام کو دفاعی نظام نے گرایا ہے کہ نہیں۔‘
امریکی عہدیدار کے مطابق ’ابتدائی رپورٹس میں کسی امریکی کی ہلاکت کی نشاندہی نہیں کی گئی لیکن یہ معلومات تبدیل ہو سکتی ہیں۔‘
یہ راکٹ ایسے وقت میں داغے کیے گئے ہیں جب امریکی فوجیوں کا انخلا مکمل ہونے میں 48 گھنٹے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔
شہر میں موجود فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے صحافیوں کے مطابق ’پیر کی صبح پورے کابل میں راکٹوں کے فائر ہونے کی آواز سنائی دی۔‘
عینی شاہدین اور سکیورٹی ذرائع کے مطابق ’کابل کے ہوائی اڈے پر کئی راکٹ فائر کیے گئے۔’
کابل کے ہوائی اڈے کے قریب دھواں اٹھتا ہوا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
کابل کے ہوائی اڈے کے قریب رہنے والے افراد نے بتایا کہ ’انہوں نے میزائل دفاعی نظام کو فعال کیے جانے کی آوازیں سنی ہیں۔‘
انہوں نے گلی میں چھرے گرنے کی اطلاع بھی دی اور کہا کہ ’کم از کم ایک راکٹ کو ناکام بنا دیا گیا۔‘
سابق افغان حکومت کے ایک سکیورٹی عہدیدار کے مطابق ’راکٹ شہر کے شمالی علاقے سے ایک گاڑی کے ذریعے داغے گئے تھے۔‘
کابل ایئر پورٹ پر راکٹ داغے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک تصویر شیئر کی گئی ہے جس میں ایک گاڑی کو جلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تصویر کی فوری طور پر تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصویر میں ایک گاڑی کو جلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے تاہم تصویر کی فوری تصدیق نہیں ہوسکی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب امریکی فوجیوں کا انخلا اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے تمام امریکی افواج کے انخلا کے لیے منگل کی ڈیڈ لائن مقرر کررکھی ہے۔ یہ امریکہ کی تاریخ کا طویل ترین فوجی تنازع ہے جو 11 ستمبر کے حملوں کے جواب میں شروع ہوا تھا۔
سخت گیر طالبان جن کی حکومت کو سنہ 2001 میں ختم کر دیا گیا تھا، نے 15 روز قبل اقتدار واپس لے لیا، جس کی وجہ سے امریکی قیادت میں انخلا کی پروازوں میں خوفزدہ لوگوں کی نقل مکانی شروع ہو گئی۔
وہ پروازیں جنہوں نے کابل ایئرپورٹ سے ایک لاکھ 14 ہزار سے زائد افراد کو باہر نکالا، منگل کو سرکاری طور پر اس وقت ختم ہو جائیں گی جب ہزاروں امریکی فوجی ملک سے نکل جائیں گے۔
تاہم اب امریکی افواج کی توجہ خود کو اور امریکی سفارت کاروں کو بحفاظت باہر نکالنے پر مرکوز ہے۔

اس وقت امریکی افواج کی توجہ خود کو اور امریکی سفارت کاروں کو بحفاظت باہر نکالنے پر مرکوز ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

داعش جو افغان طالبان کی سب سے بڑی حریف ہے، گذشتہ جمعرات کو ایئرپورٹ پر خودکش حملے کے بعد انخلا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
جمعرات کو ہونے والے اس حملے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 150 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا تھا کہ کابل ایئرپورٹ پر مزید حملوں کا بہت زیادہ امکان ہے اور امریکہ نے کہا ہے کہ اس نے اتوار کی رات کابل میں دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی پر فضائی حملہ کیا۔
طالبان کے ایک ترجمان نے اتوار کو ہونے والے امریکی حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’دھماکہ خیز مواد سے لیس ایک کار کو تباہ کر دیا گیا تھا، جس کا ہدف ایئرپورٹ تھا اور ممکنہ طور پر دوسرا حملہ قریبی مکان پر ہوا۔‘
امریکہ پر پوری جنگ میں فضائی حملوں میں کئی شہریوں کو ہلاک کرنے کا الزام ہے، جو مقامی حمایت سے محرومی کی ایک وجہ ہے۔

طالبان کی امریکی ڈرون حملے پر تنقید

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو چین کے سرکاری ٹیلی ویژن سی جی ٹی این کو انٹرویو دیتے ہوئے کابل میں پہلے بغیر بتائے امریکی ڈرون حملے کی مذمت کی ہے۔
روئٹرز کے مطابق ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ کا اپنی مرضی سے دوسرے ممالک میں حملے کرنا غیر قانونی ہے۔

شیئر: