Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں بھاری زیور اور جینز پر پابندی

ہسپتال کی حدود میں نافذ ڈریس کوڈ میں چست لباس اور بھاری زیورات پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے (فوٹو: وکیپیڈیا)
جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور میں بہاول وکٹوریہ ہسپتال (بی وی ایچ) کے نو تعینات شدہ میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد یونس وڑائچ ایک انتظامی حکم کی وجہ سے سوشل ٹائم لائنز پر زیربحث ہیں۔
متعدد سوشل میڈیا صارفین انگریزی اخبار ڈان کی ایک رپورٹ کو شیئر یا اس کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کر رہے ہیں کہ بی وی ایچ کے ایم ایس ڈاکٹر محمد یونس نے خواتین سٹاف کے لیے جینز پر پابندی لگاتے ہوئے دوپٹہ یا سکارف لازم قرار دیا ہے۔
ڈریس کوڈ سے متعلق ہسپتال کے حکم نامے کا ذکر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ نوٹیفیکیشن میں ’اجازت ہے‘ اور ’ممنوع ہے‘ کی دو کیٹیگریز رکھی گئی ہیں۔
حکم نامے کی ’اجازت ہے‘ والی کیٹیگری میں ’شلوار قیمص یا ٹراؤزر ہمراہ لمبی شرٹ، دوپٹہ/سکارف، مناسب جیولری مثلا سٹڈز، ٹاپس، سادہ انگوٹھی، لاکٹ کے ساتھ چین، کہنی سے نیچے تک آستین، لیب کوٹ (ہسپتال کی حدود میں لازم)، میٹرنٹی گاؤن، مناسب لباس، لمبی آستینوں کے ساتھ سکرچ جو موڑے جا سکتے ہوں، شامل رکھے گئے ہیں۔
’بی وی ایچ بہاولپور کی حدود میں ڈریس کوڈ‘ کے عنوان سے جاری کردہ ہدایات میں جینز/ٹائٹس (گھٹنوں تک لمبی شرٹس کے ساتھ پہن سکتے ہیں)، اونچے ٹراؤزرز/ٹخنوں سے اونچے کیپری، جسم سے چپکا ہوا لباس، جسم کو مکمل نہ ڈھانپنے والا سی تھرو لباس، بھاری چوڑیاں و انگوٹھی، بغیر آستین یا آدھی آستین کے کپڑے، بھاری میک اپ (خصوصا گہرے رنگوں کی لپ سٹک)، کھلے ہوئے لمبے بال، اونچی ہیل جو آواز پیدا کرے، گہرے گلے یا کمر کو نیچے تک دکھانے والی شرٹ، لمبے ناخن یا پینٹ شدہ ناخن، سلپرز اور پازیب پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

1876 سے قائم بہاول وکٹوریہ ہسپتال علاقے کے بڑے طبی مراکز میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے (فوٹو: وکیمیڈیا کامنز)

ہسپتال کے ایم ایس  کے مطابق آپریشنز کے دوران میٹرنٹی گاؤن اور لیب کوٹس لازم قرار دیے گئے ہیں۔ خواتین میڈیکل آفیسرز کے لیے ہسپتال کی حدود میں مناسب جیولری کے ساتھ دوپٹے یا سکارف کو لازم قرار دیا گیا ہے۔
سوشل ٹائم لائنز پر خبر شیئر کرتے ہوئے اس پر تبصرہ کرنے والے صارفین میں سے کچھ نے جہاں ہسپتال کے حکم نامے پر ایم یس پر تنقید کی وہیں کچھ ایسے بھی تھے جو ہدایات کا مناسب قرار دے کر میڈیکل سپریٹنڈنٹ کی حمایت کرتے رہے۔
ایک ٹویپ نے ایم ایس کو ’وومن سنٹرک‘ ڈریس کوڈ عائد کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’جب وہ قائم مقام سربراہ تھے تو عبایا یا چادر نہ لینے والی خواتین کو پانچ ماہ تک تنخواہ ادا نہیں کی۔ ایک اور دن جب مرد فیصلہ کریں گے کہ خواتین کیا پہنیں۔‘

وقار خان نامی صارف نے ایم ایس کے اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال کے ایم ایس کو مناسب لباس سے متعلق ڈریس کوڈ پر سراہیں۔‘

زینب نامی ہینڈل نے اپنے تبصرے میں ڈریس کوڈ سے متعلق معاملے کو ’زبردستی کی اسلامائزیشن‘ قرار دیتے ہوئے اس پر ناگواری کا اظہار کیا۔

پروفیسر ڈاکٹر غزالہ صادق نامی ٹوئٹر ہینڈل نے ایم ایس کے اقدام کا ذکر کرتے ہوئے اس کی تعریف کی تو تجویز دی کہ ایک قدم اور اٹھائیں اور مردوں کے لیے ڈاڑھی رکھنا اور ٹوپی پہننا لازم قرار دیں۔

ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر محمد یونس وڑائچ کے مطابق یہ اقدام اسلام کی تبلیغ، دینی اقدار کے فروغ اور معاشرتی اصلاحات کے لیے کیا گیا ہے۔

شیئر: