Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب نے انتہاپسندانہ نظریات اور دہشت گردی کو کیسے شکست دی؟

مملکت نے 15 دسمبر 2015 کو اعلان کیا تھا کہ وہ اسلامی عسکری انسداد دہشت گردی اتحاد (آئی ایم سی ٹی سی) قائم کررہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
’ہم اپنی زندگی کے 30 سال انتہا پسندانہ نظریات سے نمٹنے میں نہیں گزاریں گے۔ ہم انہیں آج اور فوراً ختم کر دیں گے۔‘ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ اہم عزم اکتوبر 2017 میں ریاض میں ایک سرمایہ کاری کانفرنس میں کیا۔
یہ تبصرہ صرف میڈیا کے بروئے کار لانے کے لیے نہیں تھا بلکہ اس نے اس انتہا پسندانہ نظریات سے نمٹنے کے لیے ایک نیا روڈ میپ قائم کیا ہے جس نے حالیہ دہائیوں میں دنیا کو بالعموم اور سعودی عرب کو بالخصوص خطرے میں ڈال رکھا ہے۔
محمد السلمی نے عرب نیوز کے لیے ایک مضمون میں لکھا کہ امریکہ نائن الیون حملوں کی 20 ویں سالگرہ منانے کی تیاریاں کر رہا ہے لیکن دہشت گردی اور اسلامی انتہا پسندی کے نظریے کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کے کارناموں کو یاد کرنے کا بھی یہ اتنا ہی بہتر وقت ہے۔ امریکہ میں سابق سعودی سفیر شہزادہ ترکی الفیصل نے 2016 میں واشنگٹن ڈی سی میں ایک پینل مباحثے کے دوران کہا کہ ’سعودی عرب اور امریکہ ایک ہی طرح کی دہشت گرد گروہوں کی دہشت گردی کا شکار ہیں۔‘
پہلا دہشت گردانہ حملہ سانحۂ جوہیمن کے نام سے جانا جاتا ہے جب مکہ کی مسجد الحرام کا 1979 میں محاصرہ کیا گیا۔ جوہیمن العطیبی کی قیادت میں کئی سو عسکریت پسندوں نے اس مسجد پر دھاوا بول دیا تھا جو اسلام کی مقدس ترین جگہ ہے۔ انہوں نے سینکڑوں بے گناہ حاجیوں کو یرغمال بنا لیا اور کمانڈوز کے زیر قبضہ ہونے سے پہلے اس احاطے کو میدان جنگ بنا دیا۔ دو ہفتوں تک جاری رہنے والے اس تصادم میں 250 سے زائد افراد ہلاک اور 560 زخمی ہوئے تھے۔
1987 میں تہران میں حکومت کے انقلابی نظریے سے متاثر ایرانی حجاج مکہ میں حج کے دوران سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں 400 سے زائد اموات کا باعث بنے۔ اس سے سعودی عرب کے حکمرانوں کا بنیاد پرستی کے خاتمے اور مملکت کو دہشت گرد حملوں اور انتہا پسندانہ نظریات سے بچانے کے عزم کا مزید مستحکم ہوا۔
اس کے بعد سعودی دارالحکومت کی پہلی دہشت گردی کا سامنا کرنے کی باری تھی۔ نومبر 1995 میں سعودی نیشنل گارڈز کی رہائشی عمارت کے سامنے کار بم دھماکہ ہوا۔ اس حملے میں پانچ امریکی اور دو انڈین شہری ہلاک ہوئے اور مختلف قومیتوں کے درجنوں دیگر افراد زخمی ہوئے۔

عالمی مرکز ’اعتدال‘  کا افتتاح مئی 2017 میں شاہ سلمان، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر رہنماؤں نے کیا (فائل فوٹو: ایس پی اے)

یہ بم دھماکہ چار سعودی نوجوانوں نے کیا جو افغانستان میں القاعدہ رہنماؤں کی تقریروں اور مملکت کی صحوا تحریک کے نظریات سے متاثر تھے۔
صحوا  یا ’بیداری‘ تحریک اخوان المسلمون سے متاثر انتہا پسند مولویوں کی قیادت میں تھی۔ بعد ازاں ایک سال سے بھی کم عرصے بعد مئی 1996 میں بم دھماکے کے ذمہ داروں کو پھانسی دے دی گئی، لیکن اس کے باوجود دوسرے انتہا پسند گروہ منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ 25 جون 1996 کو مشرقی صوبے کے شہر الخبار کو ایک بڑے بم سے نشانہ بنایا گیا۔
دہشت گردوں نے امریکی فضائیہ اور فوجیوں کے زیر قبضہ ایک آٹھ منزلہ عمارت خبار ٹاورز کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں امریکی فضائیہ کے 19 ارکان کے ساتھ ساتھ ایک سعودی شہری بھی ہلاک اور مختلف قومیتوں کے 498 رہائشی زخمی ہوئے۔
بعد میں یہ ثابت ہوا کہ حملہ آوروں کا تعلق ایران کے پاسداران انقلاب سے تھا۔ ان میں سے ایک احمد المغاسل بم دھماکے کے بعد ایران اور پھر لبنان فرار ہو گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق سعودی حکام اسے اگست 2015 میں بیروت سے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے۔

سعودی ولی کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنی زندگی کے 30 سال انتہا پسندانہ نظریات سے نمٹنے میں نہیں گزاریں گے‘ (فائل فوٹو: ایس پی اے)

1996 کے بعد القاعدہ کو قائم ہوئے سات برس ہو چکے تھے۔ پھر اسامہ بن لادن کی قیادت میں اس دہشت گرد گروہ نے سعودی عرب کے خلاف 12 مئی 2003 کو آپریشن کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے تین رہائشی کمپلیکسز دورات الجدویل، الحمرا اویسس ویلج اور ونیل کارپوریشن میں چار کار بم  دھماکے کیے۔ ان حملوں میں 39 افراد ہلاک ہوئے۔
اس کے سات ماہ بعد القاعدہ سے متاثر شدت پسندوں نے نومبر 2003 میں ریاض کے قریب المحیا میں بم دھماکے کیے، جن میں 17 افراد ہلاک اور 122 زخمی ہوئے۔
21 اپریل 2004 کو ریاض میں واقع جنرل سکیورٹی بلڈنگ پر ایک خودکش کار بم حملے میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوئے۔
2018 میں سٹیٹ سکیورٹی کی صدارت نے کہا کہ پچھلے 21 برسوں کے دوران سعودی عرب میں 863 دہشت گرد کارروائیاں کی گئیں۔ ان کارروائیوں میں متاثر ہونے والوں کی تعداد 3 ہزار سات تھی جبکہ 333 سکیورٹی افسران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 695 دہشت گرد ہلاک اور 346 زخمی ہوئے۔

25 جون 1996 کو مشرقی صوبے کے شہر الخبار کو ایک بڑے بم سے نشانہ بنایا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پھر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے انتہا پسندی، دہشت گردی اور اس سے وابستہ نظریات کے خلاف مہم کے ساتھ آگے بڑھنے پر زور دیا۔ اس کے بعد مملکت نے کئی ایسے اقدامات کیے جنہوں نے مقامی سطح پر دہشت گردی کی کارروائیوں کو ختم کرنے اور انتہا پسند نظریات کو بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس سے قبل مملکت نے 15 دسمبر 2015 کو اعلان کیا تھا کہ وہ اسلامی عسکری انسداد دہشت گردی اتحاد (آئی ایم سی ٹی سی) قائم کررہا ہے جو کہ انتہا پسندی کے مخالف ممالک پر مشتمل اتحاد ہے۔ اتحاد کا اعلان کرتے وقت جاری کیے گئے بیان کے مطابق اس اقدام کا مقصد دہشت گردی کی تمام شکلوں میں لڑنا ہے چاہے وہ کسی بھی نام سے ہو۔
آئی ایم سی ٹی سی 41 مسلم ممالک کا اتحاد ہے جو مشترکہ منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لیتے ہیں۔ اس اتحاد کا ایک مشترکہ آپریشن روم ریاض میں قائم ہے جو انتہا پسند نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے کام کرتا ہے اور دہشت گردوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کے سدباب کی کوششوں کو مربوط کرتا ہے۔
سعودی عرب نے آئی ایم سی ٹی سی کے قیام پر ہی بس نہیں کی۔ 30 اپریل 2017 کو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنی سربراہی میں آئیڈیالوجیکل وار سنٹر قائم کیا جو وزارت دفاع سے وابستہ ہے۔ اس سینٹر کو حقیقی مذہب کے تصورات کو مستحکم کرنے کے علاوہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی بنیادوں سے لڑنے کا کام سونپا گیا ہے۔
سلامتی اور دہشت گردی کے امور کے تجزیہ کار اور محقق سعود العتیبی کے مطابق آئی ایم سی ٹی سی کے قیام سے سعودی عرب نے دنیا کو واضح پیغام دیا کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اور دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
العتیبی نے نشاندہی کی کہ مملکت کی کوششیں صرف آئی ایم سی ٹی سی تک محدود نہیں ہیں۔ اس نے انتہاپسندانہ نظریات کو سدباب کا عالمی مرکز ’اعتدال‘ بھی قائم کیا جس کا افتتاح مئی 2017 میں شاہ سلمان، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر رہنماؤں نے کیا جنہوں نے ریاض میں عرب اسلامک امیرکن سمٹ میں شرکت کی۔
’اعتدال‘ کو 110 ملین ڈالر کی مالی مدد ملی ہے۔ ایک قانونی مشیر عبدالعزیز الحرثی نے عرب نیوز کو بتایا کہ نظریے کو نشانہ بنانے والی قانون سازی کا نفاذ انتہا پسندی کے خلاف سعودی جنگ کا ایک اور ستون ہے۔
نئے قوانین مالیاتی معاملات کی نگرانی کا بندوبست کرتے ہیں اور تمام عطیات کی ترسیل کو کنگ سلمان ریلیف سینٹر کے ذریعے محدود کرتے ہیں۔ یہ اقدام اداروں کی درجہ بندی اور دہشت گردی کی حمایت کرنے والے افراد کی شناخت کرکے دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کو روکتا ہے۔
الحرثی نے اپریل 2021 کی ایک ٹیلی ویژن میٹنگ کی طرف اشارہ کیا جب ولی عہد نے کہا تھا کہ ’جو بھی انتہا پسندانہ رویہ اختیار کرتا ہے، چاہے وہ دہشت گرد نہ بھی ہو وہ مجرم ہے جسے قانون کے مطابق جواب دہ ٹھہرایا جائے گا۔‘
الحرثی نے کہا کہ ’ایک انتہائی اہم پہلو جو انتہا پسندی سے نمٹنے میں مملکت کے عزم اور ثابت قدمی کی تصدیق کرتا ہے وہ دہشت گردوں پر مقدمے چلانا اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا ہے تاکہ انہیں اسلام اور ریاست کے خلاف اقدامات کی عبرتناک سزا ملے۔‘

شیئر: