Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اعتماد سازی کے لیے ایران کو دوسرے ممالک میں مداخلت بند کرنا ہوگی‘

ایلکس واٹنکا کا کہنا تھا کہ ایران کے ہمسایہ ممالک تشویش کا شکار ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
مشرق وسطیٰ انسٹی ٹیوٹ میں ڈائریکٹر ایران پروگرام ایلکس واٹنکا نے کہا ہے کہ ایران اور عرب ممالک کے درمیان مفاہمت کے لیے ضروری ہے ایران اپنے ہمسایہ ممالک کو قائل کرے کہ اس نے ان کے معاملات میں مداخلت ترک کر دی ہے۔ 
منگل کو برطانوی تھنک ٹینک ’چیٹم ہاؤس‘ میں ’ایران کی سیاسی دشمنیاں اور خارجہ پالیسی کے مضمرات‘ کے عنوان پر گفتگو کا انعقاد کیا گیا جس میں عرب نیوز نے بھی شرکت کی۔
چیٹم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو میں وسیع موضوعات پر بات چیت کی گئی جس میں داخلی حالات سے لے کر ایران کے عرب ممالک میں پراکسیز کے استعمال اور مستقبل میں افغانستان کے ساتھ تعلقات زیر غور آئے۔
کتاب ’ایران میں آیت اللہ کی جنگ‘ کے مصنف ایلکس واٹنکا کا کہنا تھا کہ ایران نے اپنے شہریوں کے سامنے پراکسیز کے استعمال کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ تنازعات کو ایران کی سر زمین سے دور رکھنے کے لیے یہ حکمت عملی ضروری ہے، تاہم ان اقدامات کے باعث ہمسایہ ممالک میں ایران کے ارادوں سے متعلق تشویش پائی جاتی ہے۔
‘ایران کے اکثر ہمسایہ ممالک چوکس ہیں، ان میں تشویش پائی جاتی ہے کہ ایران کیا کر سکتا ہے۔ تمہیں (ایران) اپنے ہمسایوں کو یقین دہانی کروانے کی ضرورت ہے کہ تم ہمسایہ ممالک میں حکمران اشرافیہ کو گرانے میں مزید دلچسپی نہیں رکھتے۔ عرب ممالک بالخصوص خلیجی ریاستوں کے ساتھ اعتماد سازی کے لیے ایسا کرنا انتہائی اہم ہے۔‘
 ایلکس واٹنکا نے ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ آئی اور سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کے درمیان تاریخی مخالفت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ داخلی سطح پر مسابقت کس طرح سے وسیع پالیسی پر اثر انداز ہوتی ہے۔

ایلکس واٹنکا نے کہا کہ ’تہران میں چھوٹے لیکن طاقتور طبقے کے مفادات کے لیے قومی مفاد کا قربان کیا جاتا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ایلکس واٹنکا نے کہا کہ داخلی سطح پر اپنائی گئی پوزیشن ایران کی ’موقع پرست‘ خارجہ پالیسی میں پراکسیز کے استعمال میں دیکھی جا سکتی ہے، تاہم یہ ایرانی عوام کے ساتھ دھوکے کی جانب بھی اشارہ ہے جبکہ دوسری جانب ایرانی حکومت کی ضروریات کو مدنظر رکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اکثر اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ تہران میں چھوٹے لیکن طاقتور طبقے کے مفادات کے لیے قومی مفاد کو قربان کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے اس کی ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’انہوں (خامنہ ای) نے ایسے موقع پر اعلان کیا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ میں تیار کردہ ویکسین نہیں خریدنی چاہیںں، جب ملک کو کورونا کی پانچویں لہر کا سامنا ہے، صحتی بحران سے دوچار ہے، لیکن خامنہ ای سیاست کھیل رہے تھے۔‘
ایلکس واٹنکا نے مزید کہا کہ ’خارجہ پالیسی کے تناظر میں اس اقدام کا کوئی جواز نہیں بنتا لیکن اگر طاقت کی سیاست کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پھر اس کی منطق سمجھ آتی ہے۔ اور اکثر اوقات ایسا ہی ہوتا ہے کہ قومی مفاد کو قربان کیا جاتا ہے۔‘

شیئر: