Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرانس کی تاریخ کے سب سے بڑے مقدمے کا آغاز

مرکزی ملزم صلاح عبدالسلام حملہ آوروں میں سے زندہ بچ جانے والا واحد شخص ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
فرانس میں سنہ 2013 کے ’جہادی حملوں‘ کے ٹرائل کے پہلے دن مرکزی ملزم نے مقدمے کی سماعت کرنے والے جج پر چیخنے سے عدالتی کارروائی میں مختصر وقت کے لیے رکاوٹ ڈالی۔
خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے فرانسیسی ٹی وی کے حوالے سے بتایا ہے کہ بدھ کو مرکزی ملزم صلاح عبدالسلام نے عدالت میں چیخنا شروع کیا اور کہا کہ ان کو اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ’کتوں جیسا برتاؤ‘ کیا گیا۔
فرانس کی جدید قانونی تاریخ کا یہ سب سے بڑا مقدمہ قرار دیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ نومبر 2015 میں پیرس پر ہونے والے حملوں میں 130 افراد کو بارز، ریستورانوں اور کنسرٹ ہال میں قتل کیا گیا تھا۔
حملوں کے دوران عسکریت پسندوں کی تین ٹیموں کی جانب سے خودکش بمبار کو استعمال کیا اور فائرنگ کی، بعد میں داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔
یہ حملے دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس کی تاریخ کا بدترین واقعہ تھا جس میں اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت ہوئی۔
جج نے مرکزی ملزم سے کہا ہے کہ وہ خاموش رہے۔
مقدمے کی کارروائی کے لیے بنائے گئے عدالتی کمروں میں ایک ہزار 800 درخواست گزار اور ان کے 300 وکلا کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
حملوں میں بچ جانے والوں اور مارے جانے والوں کے لواحقین سے بھرے کمرہ عدالت میں مرکزی ملزم صلاح عبدالسلام سے کہا گیا کہ وہ اپنا نام اور کام کا شعبہ بتائے جس پر ملزم نے خود کو ’داعش کا جنگجو‘ قرار دیا۔

ملزم صلاح عبدالسلام سے عدالت میں کئی سوالات پوچھے جانے ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی

مرکزی ملزم، جس کے ایک بھائی نے خود کو خودکش حملے میں اڑا دیا تھا، نے چھوٹے بازوؤں والی کالی ٹی شرٹ اور سیاہ ٹراؤزر پہنا ہوا تھا اور اپنے لمبے بال باندھے ہوئے تھے۔
مقدمے کی سماعت کرنے والے جج ژاں لوئس پیریز نے نو ماہ چلنے والے ٹرائل کے آغاز پر تسلیم کیا کہ یہ غیر معمولی کیس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جس مقدمے کا ہم فیصلہ کرنے جا رہے ہیں اس کی تاریخی اہمیت ہے اور رواں صدی کے اہم بین الاقوامی اور قومی واقعات میں سے ایک ہے۔‘
مقدمے میں 12 ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی جن میں سے چھ کے خلاف ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
مرکزی ملزم صلاح عبدالسلام حملہ آوروں میں سے زندہ بچ جانے والا واحد شخص ہے۔
صلاح عبدالسلام حملوں کے بعد اپنی کرائے پر لی گئی کار کو شمالی پیرس میں چھوڑ دیا اور خراب خودکش جیکٹ کو ضائع کرنے کے بعد برسلز بھاگ گئے تھے۔

نومبر 2015 میں کیے گئے ان حملوں کے بعد اب عوامی مقامات پر پولیس اہلکار اسلحے کے ساتھ گشت کرتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

مرکزی ملزم نے تفتیش کاروں کے سوالوں کے جواب دینے سے انکار کیا تھا۔
نو ماہ تک چلنے والے اس مقدمے کے پہلے مہینے پولیس عدالت کے سامنے فارنزک شواہد رکھے گی جبکہ اگلے ماہ اکتوبر کے دوران حملے کے متاثرین اپنے بیانات ریکارڈ کرائیں گے۔
ملزم صلاح عبدالسلام سے عدالت میں کئی سوالات پوچھے جانے ہیں۔
نومبر 2015 میں کیے گئے یہ حملے فرانس میں کئی تبدیلیوں کا سبب بنے اور حملوں کی رات نافذ کی گئی ایمرجنسی کے بعد اب عوامی مقامات پر پولیس اہلکار مسلسل اسلحے کے ساتھ گشت کرتے ہیں۔

شیئر: